ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے ،'' بتوں کو ہم خُدا کہتے رہے ہیں''


بتوں کو ہم خُدا کہتے رہے ہیں
خُدا جانے یہ کیا کہتے رہے ہیں

ملمع تھا، اُترنے پر ہی جانا
جفا کو بھی وفا کہتے رہے ہیں

وہی آخر ہمارے کام آیا
جسے اکثر بُرا کہتے رہے ہیں

اُنہیں کیا تھی خبر، ہم ایک ہی تھے
تُمہیں مجھ سے جُدا کہتے رہے ہیں

گرے تھے پستیوں میں جانتے ہیں
ہمیں اوپر اُٹھا کہتے رہے ہیں

ہمیں کیسے نہ مل پائے گی بخشش
نہیں اُس کے سوا کہتے رہے ہیں

اُسے بس اک ٹھکانے پر نہ ڈھونڈو
ہے ہر سو جا بجا کہتے رہے ہیں

کسی قابل نہیں، ہے دین اُس کی
کہ اظہرؔ بھی سنا کہتے رہے ہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top