ایک غزل برائے اصلاح، تبصرہ اور تنقید پیش ہے ،'' ہمسفر راستے کی دھول تو ہو''

ہمسفر راستے کی دھول تو ہو
سایہ افگن کہیں ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کوئی نہیں
سر بھی پٹکوں، دعا قبول تو ہو
یہ نہ ہو راستے میں مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اور کچھ نا کرے، ملول تو ہو
پیار میں امتناع لازم ہے
بے اصولی کا اک اصول تو ہو
دے، ہواوں کے دوش پر بوسہ
لب ترستے ہیں کچھ وصول تو ہو
بھول کہتے ہیں وصل کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت خوب۔ شاندار غزل ہے۔ آدھے استاد کو بظاہر اصلاح کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ ایک دو مقامات پر مگر کچھ معنوی عیب نظر آتا ہے۔

1۔ پیار میں امتناع لازم ہے، بے اصولی کا اک اصول تو ہو۔ واضح نہیں ہوا کس بے اصولی کا مذکور ہے؟ مضمون مبتذل ہی نہ ہو جائے۔
2۔ بھول کہتے ہیں وصل کو اظہر، بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو۔ محلِّ اشکال ہے۔ کبھی کسی کو نہیں سنا، وصل کو بھول کہتے ہوئے۔ شادی کے بارے میں شاید کچھ حضرات ایسا کہتے ہوں۔ مگر اشارہ اگر اس طرف ہے، تو غزل کا مضمون شاید نہ رہا۔

باقی میری طرف سے اس زبردست غزل پر داد قبول کیجیے!
 
بہت خوب۔ شاندار غزل ہے۔ آدھے استاد کو بظاہر اصلاح کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ ایک دو مقامات پر مگر کچھ معنوی عیب نظر آتا ہے۔

1۔ پیار میں امتناع لازم ہے، بے اصولی کا اک اصول تو ہو۔ واضح نہیں ہوا کس بے اصولی کا مذکور ہے؟ مضمون مبتذل ہی نہ ہو جائے۔
2۔ بھول کہتے ہیں وصل کو اظہر، بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو۔ محلِّ اشکال ہے۔ کبھی کسی کو نہیں سنا، وصل کو بھول کہتے ہوئے۔ شادی کے بارے میں شاید کچھ حضرات ایسا کہتے ہوں۔ مگر اشارہ اگر اس طرف ہے، تو غزل کا مضمون شاید نہ رہا۔

باقی میری طرف سے اس زبردست غزل پر داد قبول کیجیے!
بہت شکرگزار ہوں جناب، دراصل مقطع میں میل کہنا چاہتا تھا، پھر پتی نہیں کیوں رُک گیا، البتہ دوسرے شعر میں واضح ہے میرے خیال سے تو کہ پیار میں کم سے کم بے اصولی منع ہونی چاہیے، اور یہی اک اصول بے اصولی کا بن جائے
ہمسفر راستے کی دھول تو ہو
سایہ افگن کہیں ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کوئی نہیں
سر بھی پٹکوں، دعا قبول تو ہو
یہ نہ ہو راستے میں مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اور کچھ نا کرے، ملول تو ہو
پیار میں امتناع لازم ہے
بے اصولی کا اک اصول تو ہو
دے، ہواوں کے دوش پر بوسہ
لب ترستے ہیں کچھ وصول تو ہو
بھول کہتے ہیں میل کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت شکرگزار ہوں جناب، دراصل مقطع میں میل کہنا چاہتا تھا، پھر پتی نہیں کیوں رُک گیا، البتہ دوسرے شعر میں واضح ہے میرے خیال سے تو کہ پیار میں کم سے کم بے اصولی منع ہونی چاہیے، اور یہی اک اصول بے اصولی کا بن جائے

پیار میں امتناع لازم ہے
بے اصولی کا اک اصول تو ہو

بھول کہتے ہیں میل کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
پہلے شعر میں لفظ "امتناع" کے استعمال کے سبب آپ کی بیان کردہ تشریح زیادہ قابلِ قبول نہیں۔ غالبا آپ "امتناع" سے "سیلف کنٹرول" کے معنی مراد لینا چاہتے ہیں یا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی حد ہونی چاہیے (انگریزی کے محاورے کے برخلاف)۔ مگر معنوی لحاظ سے یہ ممکن نہیں۔ "امتناع" تو خارجی ہوتا ہے۔ کیا کوئی تیسرا آ کر روکے؟ اسی نسبت سے میں نے کہا تھا کہ "مضمون مبتذل ہی نہ ہو جائے"۔

مقطع کا معنوی سقم دور ہوا۔ کیوں نہ لفظ "پیار" ہی استعمال کر لیا جائے؟ سماعت کو زیادہ بھلا لگے گا۔ مراد تو یوں بھی وہی ہے۔
 
ہمسفر راستے کی دھول تو ہو
سایہ افگن کہیں ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کوئی نہیں
سر بھی پٹکوں، دعا قبول تو ہو
یہ نہ ہو راستے میں مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اور کچھ نا کرے، ملول تو ہو
پیار میں امتناع لازم ہے
بے اصولی کا اک اصول تو ہو
دے، ہواوں کے دوش پر بوسہ
لب ترستے ہیں کچھ وصول تو ہو
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
 
ہمسفر راستے کی دھول تو ہو
سایہ افگن کہیں ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کوئی نہیں
سر بھی پٹکوں، دعا قبول تو ہو
یہ نہ ہو راستے میں مل جائے
میرے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اور کچھ نا کرے، ملول تو ہو
پیار میں امتناع لازم ہے
بے اصولی کا اک اصول تو ہو
دے، ہواوں کے دوش پر بوسہ
لب ترستے ہیں کچھ وصول تو ہو
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
 
مطلع اگر یوں ہو تو کیسا رہے گا

ہمسفر راستے کی دھول تو ہو
سر پہ سایہ فگن ببول تو ہو
کیونکہ کچھ حضرات کو سایہ افگن پر اعتراض ہے کہ یہ لفظ سایہ فگن ہے افگن نہیں
محترم اُستاد الف عین صاحب
 
کچھ تبدیلیوں کے ساتھ
ہمسفر راستوں میں دھول تو ہو
اے تمنا ترا حصول تو ہو
شجر الفت کی آرزو ہے عبث
کوئی پُر خار اک ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کیا ہونا
دست اُٹھے، دعا قبول تو ہو
وہ کہیں راہ میں نہ مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اپنی حرکت پہ وہ ملول تو ہو
دشمنی میں تو سب ہی جائز ہے
رسم الفت، ترا اصول تو ہو
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
 

الف عین

لائبریرین
اوہو یہ تو میں نے دیکھی ہی نہیں۔ اب تو سونے جا رہا ہوں۔انشاء اللہ سفر کے بعد، اب سعودی عرب سے مخاطب ہوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
ہمسفر راستوں میں دھول تو ہو​
اے تمنا ترا حصول تو ہو​
÷÷پچھلا مطلع ہی زیادہ بہتر تھا میرے خیال میں۔ خواہ مخواہ بدلا۔​
سر پہ سایہ فگن ببول تو ہو
شجر الفت کی آرزو ہے عبث​
کوئی پُر خار اک ببول تو ہو​
÷÷شجر میں ش اور ج دونوں متحرک ہیں۔ یہاں بر وزن فعل آ رہا ہے۔ اس کو نخل سے بدل دو تو وزن میں درست آ جائے گا۔​
اس میں حجت کی بات کیا ہونا​
دست اُٹھے، دعا قبول تو ہو​
÷÷کیا ہونا؟ سے مطلب۔ اس سے تو وہ پچھلا روپ ہی بہتر تھا۔​
اور ’دست‘ کیا ضروری سمجھ رہے ہو؟ یہاں محض ’ہاتھ‘ زیادہ اچھا لگے گا۔ بلکہ اگر یوں کر دو تو زیادہ قوی بن جائے​
ہاتھ اٹھے تو، دعا قبول تو ہو​
وہ کہیں راہ میں نہ مل جائے​
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو​
÷÷راہ میں ملنے سے کیا خوفزدہ ہو؟ اس بیانیے سے تو یہی لگتا ہے۔​
وہ کہیں راہ میں ہی مل جائے​
بہتر ہو گا۔​
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے​
اپنی حرکت پہ وہ ملول تو ہو​
÷÷درست​
دشمنی میں تو سب ہی جائز ہے​
رسم الفت، ترا اصول تو ہو​
÷÷یہ کوئی خاص بات نہیں کہی گئی ہے، اس کو نکالا جا سکتا ہے۔​
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر​
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو​
بہت خوب​
 
ہمسفر راستوں میں دھول تو ہو
سر پہ سایہ فگن ببول تو ہو
اس میں حجت کی بات کوئی نہیں
ہاتھ اُٹھیں، دعا قبول تو ہو
وہ کہیں راہ میں ہی مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اپنی حرکت پہ وہ ملول تو ہو
نخل الفت کی آرزو ہے عبث
کوئی پُر خار اک ببول تو ہو
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
 
Top