ایک غزل ،'' اُٹھتے اُٹھتے بھی مقدر نے گرایا مجھ کو'' تنقید و راہنمائی کی غرض سے

اُٹھتے اُٹھتے بھی مقدر نے گرایا مجھ کو
پھر اُٹھی ماں کی دعا، پھر سے اُٹھایا مجھ کو

موت کھولے ہوئے جبڑے تھی کھڑی رستے میں
اک ذرا ہاتھ اُٹھا، چھین کے لایا مجھ کو

کُن کی آواز ہے بس یاد، سُنائی دی تھی
خاک تھا، چاک پہ رکھا تھا، بنایا مجھ کو

اشرف الخلق جو تہرا میں، کوئی بات تو تھی
خود سے اوصاف لئے، چُن کے سجایا مجھ کو

شکر واجب ہی رہا سُکھ کا، تھا برسوں پہ محیط
دکھ کا فورا ہی کیا شکوہ، ستایا مجھ کو

شدت غم سے میں پاگل نہ ہوا بس اظہر
ماں کی یادوں نے تھا جی بھر کے رُلایا مجھ کو​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، بس روانی بہتر کی جا سکتی ہے۔مثلاً
اُٹھتے اُٹھتے بھی مقدر نے گرایا مجھ کو
پھر اُٹھی ماں کی دعا، پھر سے اُٹھایا مجھ کو
دوسرے مصرع کو
پھر اُٹھی ماں کی دعا، اور اُٹھایا مجھ کو
ذرا خود ہی غور کر کے بہتر بناؤ، ورنہ پھر میں تو ہوں ہی!!!
 
Top