ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے،'' بندھ باندھے ہوا کے رستوں پر''

بندھ باندھے ہوا کے رستوں پر
چل پڑے ہو خطا کے رستوں

روشنی ہے بہت اندھیروں میں
اور اندھیرا ضیاء کے رستوں پر

مجھ کو ملتا تو کس طرح ملتا
وہ گیا کب وفا کے رستوں پر

جو بُرا کہہ دیا ، بھلا جو کہا
سب پڑا ہے صدا کے رستوں پر

اک خریدار مل گیا کہنا
چل پڑے سچ اُٹھا کے رستوں پر

ہم سفر ہو نہ قافلہ کوئی
آخرت ہے خُدا کے رستوں پر

ایک عزت ملے تو کیا اظہر
ایک عزت نچا کے رستوں پر​
 

الف عین

لائبریرین
@اظہر نذیر۔ یہ غزل تک بندی زیادہ لگ رہی ہے۔ درست تو ہے۔ مثلاً
اک خریدار مل گیا کہنا
چل پڑے سچ اُٹھا کے رستوں پر؎
اور اس کے بعد کے دونوں اشعار بھی سمجھ میں نہیں آ سکے۔
 
Top