ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور اصلاح کی غرض سے ،'' فضول بھی تو نہیں ہے، گلوں کا کھل جانا''

فضول بھی تو نہیں ہے، گلوں کا کھل جانا
بگڑتا کچھ بھی نہیں دوست آ کہ مل جانا
خمار قربت جاناں، وہ وصل کی خواہش
گریباں چاک سا رہنا، لبون کا سل جانا
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر کس کو
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ ذرا سا چھل جانا
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خدوخالی
کبھو گُلال کا مٹنا، کبھو وہ تل جانا
ترا جواب نہیں راہ وصل پر اظہر
وہ بار بار کا چلنا، وہ مستقل جانا
 

الف عین

لائبریرین
اچھی کاوش ہے​
فضول بھی تو نہیں ہے، گلوں کا کھل جانا​
بگڑتا کچھ بھی نہیں دوست آ کہ مل جانا​
÷÷دو لخت ہے​
شعر، ’آ کہ‘ یا ’آ کے‘؟​
خمار قربت جاناں، وہ وصل کی خواہش​
گریباں چاک سا رہنا، لبون کا سل جانا​
÷÷لبوں؟​
’وہ‘ بھرتی کا ہے، اس کی جگہ یوں کہو​
خمار قربت جاناں، وصال کی خواہش​
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر کس کو​
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ ذرا سا چھل جانا​
۔۔بہتر ہے کہ یوں کہو​
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر ہی نہیں
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ کہیں پہ چھل جانا​
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خدوخالی​
کبھو گُلال کا مٹنا، کبھو وہ تل جانا​
۔۔دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔ بدل دو۔​
پہلا مصرع یوں بہتر ہے​
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خم و کاکل
خد و خالی لفظ بھی غلط ہے اور خد و خال کی آرائش؟؟​
ترا جواب نہیں راہ وصل پر اظہر​
وہ بار بار کا چلنا، وہ مستقل جانا​
۔۔راہِ وصل؟ یہاں راہِ عشق کیسا رہے گا؟​
دوسرا مصرع بدل دو۔ جانا کے مقابلے میں ’آنا‘ بہتر ہے چلنا نہیں۔​
وہ بار بار کا آنا، وہ مستقل جانا​
اگرچہ یہ مصرع بھی اتنا اچھا نہیں​
 
اچھی کاوش ہے​
فضول بھی تو نہیں ہے، گلوں کا کھل جانا​
بگڑتا کچھ بھی نہیں دوست آ کہ مل جانا​
÷÷دو لخت ہے​
شعر، ’آ کہ‘ یا ’آ کے‘؟​
خمار قربت جاناں، وہ وصل کی خواہش​
گریباں چاک سا رہنا، لبون کا سل جانا​
÷÷لبوں؟​
’وہ‘ بھرتی کا ہے، اس کی جگہ یوں کہو​
خمار قربت جاناں، وصال کی خواہش​
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر کس کو​
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ ذرا سا چھل جانا​
۔۔بہتر ہے کہ یوں کہو​
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر ہی نہیں​
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ کہیں پہ چھل جانا​
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خدوخالی​
کبھو گُلال کا مٹنا، کبھو وہ تل جانا​
۔۔دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔ بدل دو۔​
پہلا مصرع یوں بہتر ہے​
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خم و کاکل​
خد و خالی لفظ بھی غلط ہے اور خد و خال کی آرائش؟؟​
ترا جواب نہیں راہ وصل پر اظہر​
وہ بار بار کا چلنا، وہ مستقل جانا​
۔۔راہِ وصل؟ یہاں راہِ عشق کیسا رہے گا؟​
دوسرا مصرع بدل دو۔ جانا کے مقابلے میں ’آنا‘ بہتر ہے چلنا نہیں۔​
وہ بار بار کا آنا، وہ مستقل جانا​
اگرچہ یہ مصرع بھی اتنا اچھا نہیں​

اُستاد محترم یوں دیکھ لیجیے، مطلع دولخت تو نہیں لگ رہا کہ گلوں کا کھلنا اور ملاقاتوں کا گُل کھلانا مربوط ہیں، پھر بھی اگر آپ کا حکم ہو تو کچھ سوچتا ہوں

فضول بھی تو نہیں ہے، گلوں کا کھل جانا​
بگڑتا کچھ بھی نہیں دوست آ کے مل جانا​
خمار قربت جاناں، وصال کی خواہش
گریباں چاک وہ حسرت، لبوں کا سل جانا
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر ہی نہیں
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ کہیں پہ چھل جانا
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خم و کاکُل
بکھرنا ایسے، سنبھلنا تو مُنفعل جانا
ترا جواب نہیں راہ وصل پر اظہر
مصیبتوں سے گزرنا پہ مستقل جانا
 
Top