ایک طویل نظم سے اقتباس۔۔دیو ڈھسال

سیما علی

لائبریرین
آدمی محض ان آنتوں کا نام نہیں جو اناج ہضم کرتی ہیں
آدمی اپنی ہمت و صلاحیت سے
فطرت اور اپنی حیوانیت پر فتح پاتا ہے
آدمی کا سفر جاری ہے
اندھیرے سے روشنی کی جانب
آدمی آزادی کی سمت جا رہا ہے
دنیا کی طاقت روشنی اور آزادی ہے
اور شاعری دنیا کا دل ہے
وہ احساسات کو گہرائیاں
اور جذبات کو وسعتیں دیتی ہے
خون میں سے کھلے ہمدردی کے پھولوں پر للچاتی ہے
وہ نسخ کرتی ہے
بزرگوں کی غلطیوں کی کرتوتوں کی خامیوں کی
زوال کی فتح کی اور ظلم کی تاریخ
میں نظم لکھنے کے لیے بیٹھا ہوں
جو کبھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ تمام الفاظ بھی
آج جھٹپٹے کے پرندوں کی طرح اکٹھے ہو گئے ہیں
میں تذبذب میں مبتلا ہوں
تڑپ رہا ہوں پسینے سے تر بہ تر ہو رہا ہوں
درد زہ محسوس کر رہا ہوں
کیا کیا لکھوں
کس کس طرح سے لکھوں
کس نام سے لکھوں
بھوک کےبارے میں لکھوں یا غریبی کے بارے میں
کنگالی کے بارے میں لکھوں یا غلامی کے بارے میں
ظلم کے بارے میں لکھوں یا الم کے بارے میں
تہذیب
رسم و رواج
پائیدان
دیوتا مذہب اور پتھر
ان کے نام پر انہوں نے ہمیں پیٹا ہے
روندا ہے اور مار ڈالا ہے
ہماری ہڈی اور گوشت کو نوچا
ہمارے چہروں کو مسخ کر ڈالا ہے
انہوں نے ہمارے آدمیوں کو زندہ جلا دیا ہے
انہوں نے ہمارے پاک بدن دروں اور پہاڑوں میں سڑا ڈالے ہیں
انہوں نے ہمیں ہمیشہ لوٹا ہے
ہمارے ننھے منوں کو قتل کرایا ہے
ہمارا زندہ پاکیزہ گرم اور تیز لہو
جو مٹی کے پیٹ میں بہایا گیا
لیکن مٹی نے ہمیں گرماہٹ نہیں دی
گھونٹ دیے اسی نے ہمارے گلے
ہم نے سوچا تھا کہ وہ ہمیں پا لے گی
ہم نے سوچا تھا کہ وہ ہمیں طاقت دے گی
اس کالی مٹی نے کالکھ کا سہارا لے کر
لکیر کے فقیروں کی چاہت کے لیے ہمیں حد سے باہر کر دیا
حد سے باہر کر دیا گرنتھوں کی
حد سے باہر کر دیا مندروں کی
حد سے باہر کر دیا داخلے کے دروازوں کی
حد سے باہر کر دیا جیتے جاگتے انسانوں کی
اور دے دی سند پورے ماٹھ مٹکوں کو سنبھالنے کی
لاش پر پھیلے کفن کو اوڑھنے کی
ہماری دولت لاش پر سے نچھاور کی گئی خیرات
ہماری پات لگ جاتی تھی کتے بلیوں کے ساتھ جوٹھن اٹھائی کے لیے
مجبور کیا تھا انہوں نے ہمیں لوٹنے کو
مرے ہوئے ڈھور گدھ کی طرح
کتے بلیاں گدھ اور ہم آدمی
پلتے رہے جانوروں کے ساتھ
کیا اور کیسے لکھوں
جس جنگل میں خون کا پانی بہا کر
ہم نے پیڑ پودے لگائے تھے
وہ سبانہوں نے نوچ ڈالے
ہم نے سوچا تھا
کسی نے کسی دن ان پیڑوں کی گھنی ممتا بھری چھاؤں میں بیٹھیں گے
پیڑوں کے پتے پتے تک پھیلتے جائیں گے
ان کی اوٹ میں سے مشرق کی سرخ سمت پھوٹے گی
اور ہمارے دلوں کی اندھیری گپھائیں
روشنی سے بھر جائیں گی
ہمت بڑھ جانے پر ہمارے سینے تن جائیں گے
گردن پرچم کی طرح اونچی اٹھ جائے گی
اور ہم آسمان کو بونا بناتے ہوئے
اپنے پیروں پر کھڑے رہیں گے
اور اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل کھو دیں گے
جو ستی کا برت لے کر
نور کے سندور سے بھر جائے گا
 
Top