ایک طرح میں طبع آزمائی

عباد اللہ

محفلین
بھئی یہ میری املا کا ہندوستانی دوست برا نہ منائیں !!!
وہ املا پر توجہ دینے کے علاوہ اور بھی تو بہت غم ہیں نا
اور ہاں
وہ ریٹینگز والے حضرات کا میں منتطر ہوں اسی لئے تدوین نہیں کر رہا
 

عباد اللہ

محفلین
ازل سے ہے چلی آتی محبت کفر و ایماں کی
مکیں تبرِ براہیمی ہے بت خانہء آذر کا
ریحان بھیا اول تو مصرع اولی میں الفاظ کی نشست اسے مکدر کر رہی ہے اور کفر و ایمان میں محبت (میں اس محبت کو پیکار پر قیاس کرتا ہوں
ابراہیم ؑ کا تبر اسی انتہائی محبت کا اظہار کرتا ہے)
اگر آپ مذہب پر چوٹ کر رہے ہیں تو ٹھیک ورنہ اصل خیال شاید یہ ہے
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغَ مصطفوی سے شرارَ بولہبی
 
ریحان بھیا اول تو مصرع اولی میں الفاظ کی نشست اسے مکدر کر رہی ہے اور کفر و ایمان میں محبت (میں اس محبت کو پیکار پر قیاس کرتا ہوں
ابراہیم ؑ کا تبر اسی انتہائی محبت کا اظہار کرتا ہے)
اگر آپ مذہب پر چوٹ کر رہے ہیں تو ٹھیک ورنہ اصل خیال شاید یہ ہے
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغَ مصطفوی سے شرارَ بولہبی
نہیں در حقیقت اس میں خیال گہرہ ہے. باقی جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو بقول جناب فاتح گهڑی جاتی ہے. کعبے کو ان بتوں سے بهی نسبت ہے دور کی. اب قاری جو چاہے مطلب نکال لے.
 

عباد اللہ

محفلین
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغَ مصطفوی سے شرارَ بولہبی[/QUOTE
اس شعر کا بھی یہ مطلب لیا جا سکتا ہے
ازل سے تا امروز کفر و ایمان موجود ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے یعنی دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں
کہ ان میں سے کسی ایک کے ختم ہو جانے پر دوسرا اپنا منطقی جواز کھو بیٹھتا ہے
 

La Alma

لائبریرین
لیجئے صاحب گرہ لگائیے
بہ ہر پہلو یہ طرفہ ماجرا ہے میرے محضر کا
پہلو سے غالبا" سمت مراد ہے۔ تو کچھ ایسے ہوسکتا ہے

عیاں ہے چہرہ در پردہ نہاں جلوہ ہے پردے میں
بہ ہر پہلو یہ طرفہ ماجرا ہے میرے محضر کا
 

ویسے دیکها جائے تو الفاظ میں بهی تسکین اوسط کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی اگر تین اکهٹے حروف متحرک آجائیں تو درمیان والے کو ساکن کر دیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ نظریں کا ظ ساکن ہے. اسی طرح میرا مصرعہ
مکیں تبرے براہیمی ہے بت خانہء آذر کا

میں تبرے کی ب ساکن کی جا سکتی ہے. اور میرا مصرعہ درست ہے.
 
آخری تدوین:
ویسے دیکها جائے تو الفاظ میں بهی تسکین اوسط کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی اگر تین اکهٹے حروف متحرک آجائیں تو درمیان والے کو ساکن کر دینا. یہی وجہ ہے کہ نظریں کا ظ ساکن ہے. اسی طرح میرا مصرعہ
مکیں تبرے براہیمی ہے بت خانہء آذر کا

میں تبرے کی ب ساکن کی جا سکتی ہے. اور میرا مصرعہ درست ہے.
سند
فارسی مصدر گشودن ہے جس کے معنی ہیں کهولنا. گ کے اوپر پیش ہے. خواجہ حافظ کا شعر دیکهیں
حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو
کہ کس نگشود و نگشاید بحکمت ایں معما را

یہاں نگشود اور نگشاید گ پر سکون کے ساته پڑهے جائیں گے ورنہ مفاعیلن مفاعلتن بن جائے گا اور شعر بحر سے خارج ہو جائے گا.
 
Top