ایک ذرا سا آنسو بھی الماس ہوا۔اسلم کولسری

ایک ذرا سا آنسو بھی الماس ہوا
تم بچھڑے تو غربت کا احساس ہوا
رات گئے پھر سوچوں کے تہ خانے میں
بھُولی بسروں یادوں کا اجلاس ہوا
کب وہ اتنا دور ہوا، محسوس نہ ہو
جی بھر کے دیکھوں، کب اتنا پاس ہوا
انگارہ سے بھڑکے ہے دل سینے میں
میلے کاغذ جیسا تن کا ماس ہوا
کمرے میں اس جلتی بجھتی سسکی سے
سناٹے کا اور بھی ستیا ناس ہوا
اور بساؤ اک پردیسی آنکھوں میں
اپنے گھر میں رہنا بھی، بن باس ہوا
نازک سا اک جھونکا بکھرا دیتا ہے
دیکھا، اسلمؔ آخر سوکھی گھاس ہوا

اسلم کولسری
 
Top