ایک دکھ بھرا قصہ

اکمل زیدی

محفلین
میں نے دروازہ بجایا اپنے گھر کا دروازہ کھلا اور بیٹی نے دروازہ کھولا اور دروازے پر ہی مجھ سے لپٹ کر جو رونا شروع کیا یا اللہ خیر کیا ماجرا ہے میں اسے لے کر گھر میں داخل ہوا ۔۔۔.. میں کافی پریشان ہو گیا کچھ سمجھ نہیں آیا مگر بیٹی باآوازِ بلند رو رہی تھی مگر بتا بھی کچھ نہیں رہی تھی میں نے اسے پچکارا خود سے الگ کیا پوچھا کیا ہوا میرے بچے کسی نے کچھ کہا کیا ہوا اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں یہ موٹے موٹے آنسو۔۔ بیگم کی طرف استفسارانہ نظروں سے دیکھا مگر وہ بیٹی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں یعنی اسے ہی بتانے دو۔۔میں پھر بیٹی کی طرف متوجہ ہوا بیٹا سو رہا تھا ورنہ وہ سب اگل دیتا اسی ٹائم آخر کار واقعہ ہچکیوں کے درمیان بتایا گیا کے جو دو چوزے لا کر دیے تھے ایک بیٹے کو اور ایک بیٹی کو تو بیٹی والا چوزہ اس دار فانی سے کوچ کر چکا تھا اور اسی صدمے میں یہ آہ بکا تھی ہم نے بالکل اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا اور اس یقیں دلایا کے میں اس کے غم میں برابر کا شریک ہوں آہستہ آہستہ اس کے رونے میں کمی ہوئی پوری بات بتائی کس طرح بلی نے چوزے پر حملہ کیا اور اس نے وائپر کے ڈنڈے سے اس پر کاؤنٹر اٹیک کیا تو بلی کو چوزہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا ہماری تسلیوں کے بعد وہ ہمارا ھاتھ پکڑ کر ہمیں کیاری کی طرف لے گئی دیکھتے ہی بات سمجھ آگئی اس کی قبر بن چکی تھی اس پر پیتے کے پھول پڑے ہوے تھے کیوںکہ فی الحال وہی دستیاب ہو سکے تھے کیاری میں کچھ دیر بعد بیٹی نارمل ہو گئ۔۔اپنا ٹائم یاد آگیا بالکل وہی باتیں جو دھندلی دھندلی سی ہمیں یاد تھی اور امی نے بھی کنفرم کیا تھا مگر بیٹا ذرا مختلف مزاج کا ہے اٹھاخ پٹاخ۔۔۔منظر بدلتا ہے رات ہو گئی ہم بچوں کو کہانی سناتے سناتے سو گئے صبح اٹھے دیکھا بیٹی بستر پر نہیں تھی صحن میں جا کر دیکھا ۔۔دوپٹہ سر پر تھا اور۔۔قبر پر فاتحہ خوانی ہو رہی تھی۔۔۔ہم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور واپس آگئے۔۔۔۔
 
Top