ایک دوست کی نظم برائے تبصرہ

سر الف عین دو چار جملے اس نظم پر کہ دیں ۔فنی لحاظ سے ، ایک دوست کی درخواست ہے۔۔۔


*یہی تو خوشی ہے*


بدن کی حقیقت سے انکار کب ہے؟
بدن بھی حقیقت ہے, اِک گہرا سچ ہے
مگر جانِ جاناں
بدن سے وراء اک جہانِ دِگر ہے
جہاں پر۔۔۔۔۔
تخیل کی تجسیم ہو جائے تو اِک
نظارۂ دِل کش کا محشر سا اُٹھے
کہ جِس سے
جہانِ تمنا کی صد رنگ, کونپل
عجب ناز سے بڑھتی جاتی ہے, ایسے
کہ خوابوں کا اِک!
بندرابن سا ہمک کر
بہت دور تک پھیل جاتا ہے جِس میں
وفائیں سرِ شام, جھولا سا ڈالے
یہاں سے وہاں تک
یونہی شاخِ دل سے, کسی شاخِ دل تک
کئی نرم و کومل
روابط بڑھانے کے کچے فسانے!
سنانے کو اکثر
بہا کرتی ہیں, تیرتی ہیں خوشی سے
فسانے کہ جن کی حقیقت فسانہ ہے
اِس سے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے

مگر جانِ جاناں
یہی تو خوشی ہے
مگر کب مِلی ہے

شکریہ
 
دوست کو بھی یہیں بلا لیں، اچھا ہے رونق بڑھ جائے گی :)
دراصل انہوں مجھ سے مشورہ کے لیے نظم بھیجی تھی۔۔۔ مجھے ایک دو جگہ خامی نظر آئی مگر میں نے سوچا اساتذہ سے رائے لے لی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔

1- نظارۂ دِل کش کا محشر سا اُٹھے
اس میں لفظ نظارۂ فعولات کی بجائے مفاعلن کے وزن پر لگ رہا ہے۔ سا کا الف گرانا بھی مجھے ناگوار لگ رہا ہے۔

2- بندرابن سا ہمک کر
بندرابن ہندی کا لفظ ہے اس لیے اس کے معنی تک نہیں پہنچ سکا۔

باقی نظم ماشااللہ بہت عمدہ ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اغلاط درست پکڑی ہیں۔
تخیل کی تجسیم ہو جائے تو ایک
دل کش نظارے کا محشر سا اُٹھے
کر دینا بہتر ہوگا
بندر ابن ہندی کا کوئی لفظ نہیں ۔ 'برندا بن' ہوتا ہے، متھرا شہر میں وہ باغ جہاں کرشن جی اپنی مستیاں کرتے تھے! اور یہ تقطیع میں نہیں آتا ۔ فاعلن کے وزن پر ہے، الفاظ بدلنے پڑیں گے
 
اغلاط درست پکڑی ہیں۔
تخیل کی تجسیم ہو جائے تو ایک
دل کش نظارے کا محشر سا اُٹھے
کر دینا بہتر ہوگا
بندر ابن ہندی کا کوئی لفظ نہیں ۔ 'برندا بن' ہوتا ہے، متھرا شہر میں وہ باغ جہاں کرشن جی اپنی مستیاں کرتے تھے! اور یہ تقطیع میں نہیں آتا ۔ فاعلن کے وزن پر ہے، الفاظ بدلنے پڑیں گے
بہت شکریہ محترم سلامت رہیں۔۔۔
 
Top