ایک خط

باسم

محفلین
18032007f.gif
 

گلِ لالہ

محفلین
ہم آپ کے تنصرے سے بالکل اتفاق کرتے ہیں۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہو رہا ہے اس کی ایک وجہ اسلام کی misinterpretation ہے۔ ہمارے علماء ایکدوسرے کےنظریات کو غلط ثابت کرنے کے لئے جتنا زرو لگاتے ہیں اگر اتنی توجہ اسلام کی درست اشاعت کی طرف دیں تو منفی پراپیگنڈے کا خاتمہ کچھ مشکل نہیں ہے۔ غیر مسلم ممالک میں مسلمانو ں کو پیش آنے والی مشکلات میں ایک بڑا ہاتھ extremist طبقے کا بھی ہے جنھوں نے اسلام کو انتہا پسندی کا مذہب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ہمارے اس سلسلے میں ذاتی مشاہدات ہیں کہ کس طرح حجاب یا داڑھی کی وجہ سے deserving ہونے کے باوجود مسلمز کے ساتھ discrimination کی جاتی ہے۔ وجہ وہ انتہا پسندی کا امیج ہے جو کچھ لوگوں کے غیر دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے بن چکا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گل آپ کی باتیں بالکل بجا ہیں لیکن اس میں بہت حد تک ہاتھ میڈیا کا بھی ہے۔ پاکستان یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کا میڈیا پر اتنا اثرورسوخ نہیں ہے جتنا کہ غیر مسلموں کا، خاص کر مسیحی قوم کا۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو آپ کی بات بالکل بجا ہے ان کا آپس میں ہی اتحاد نہیں ہے۔ تو دوسرے کیا اثر لیں گے یہ تو کھلی ہوئی حقیقت ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اللہ آپ کا بھلا کرے شمشاد بھائی۔ بہت عمدہ بات کہی۔ ہم لوگ یہاں اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم وہ چند لوگ جن کی رسائی میڈیا تک بذریعہ انٹرنیٹ ہے، انہیں چاہیئے کہ آرام اور تحمل سے اسلام کا حقیقی چہرہ روشناس کرائیں

لیکن ہمارے بھائی ایسے ہیں‌ جن کی گفتگو کا آغاز ایسا ہوتا ہے کہ جیسے اسلام کا حقیقی مفہوم جنگ و جدل کرکے دنیا پر قبضہ جمانا ہے۔ یا پھر ہم لوگ ایک دوسرے کو کافر قرار دینا شروع کر دیتے ہیں

اگر ہم لوگ آرام سے بتدریج اپنے مسلمان بھائیوں اور غیر مسلم قارئین کو پہلے اسلام سے متعارف کرائیں، پھر توحید، پھر نماز پھر روزہ پھر زکواۃ پھر حج کی طرف آئیں تو کوئی الجھن ہی پیدا نہ ہو۔ اسلام کا سیدھا سادا اور سلجھا ہوا چہرہ دنیا کو دکھائی دے

جہاد سے کسی کو انکار نہیں، توحید سے کسی کو انکار نہیں، رسالت کا کوئی منکر نہیں۔ یہاں پر ہم لوگ ساری بحث اسی بات پر کرتے ہیں‌کہ آپ دوستوں کی باتیں‌درست پر کیا کیا یہ سب باتیں کرنے کا طریقہ کار درست ہے؟ کیا میں‌ نے غلط کہا؟
 

شمشاد

لائبریرین
قیصرانی بھائی میرے نزدیک سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہمارے کہنے اور کرنے میں بہت اختلاف ہے۔

ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہہ نہیں سکتے۔

ابھی اسلام کے نام پر کوئی بھی پارٹی جلوس یا ہڑتال کی کال دے دے تو ہر کوئی اس میں زور شور سے حصہ لے گا۔ لیکن اگر دیکھیں تو ان میں 5 فیصد بھی ایسے نہیں ہوں گے جو خود شریعت پر عمل پیرا ہوں۔ تو پھر اس کا اثر کیا ہو گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

اور یہ جو بڑے بڑے اسلام کے لیڈر بنے ہوئے ہیں ان میں سے کون ہے جو خالص اللہ کے لیے دین پھیلا رہا ہے۔ یہ آپس میں تو ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے۔ دوسروں کو یہ کیا تحریک دیں گے۔ آپس میں ہی ایکدوسرے پر کفر کا فتوٰی لگاتے رہتے ہیں۔ متحد ہوتے ہیں تو صرف حکومت وقت کے خلاف اور خود حکومت میں آنے کے لیے۔ یہ بھولے ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں ان کی پوچھ گچھ بھی عام آدمی سے زیادہ ہو گی۔

جو خالص اللہ کے لیے دین کی خدمت کر رہے ہیں انہیں منظر عام پر آنے کی ضرورت ہی نہیں اور نہ ہی وہ آتے ہیں۔

دعا ہے اللہ ہمیں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک واقعہ یاد آ گیا، بہت پہلے پڑھا تھا۔ لمبا واقعہ ہے۔
جن کے ساتھ یہ واقعہ ہوا، انہی کی زبانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اندرون لاہور رہائش پذیر ہوں۔ کل رات جانے کیا تھا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں ایک جلسہ تھا جو رات ایک بجے تک جاری و ساری رہا۔ مذہبی تقریب تھی۔ کئی حضرات نے دھواں دھار قسم کی تقاریر کیں۔ اب یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ وہ حضرات کون تھے۔ انہوں نے لاؤڈ سپیکر کا بےدریغ استعمال کیا یہ احساس کیئے بغیر کہ محلے میں کوئی بیمار بھی ہو سکتا ہے جسے آرام اور نیند کی ضرورت ہے، کوئی طالبعلم بھی ہو سکتا ہے جس کا صبح امتحان ہے اور وہ پڑھائی میں مشغول ہو۔ بلکہ ان دنوں امتحانوں کا ہی موسم ہے۔

میں نے اپنی جگہ رہ کر سوچا کہ یہ حضرات اتنے زور شور سے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ زور اپنا اور شور لاؤڈ سپیکر کا۔ کیا کسی کو سیدھی راہ پر لگا رہے ہیں؟ کیا غیر مسلموں کو مسلمان کر رہے ہیں؟

اس پر مجھے اپنے ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا جو انہوں نے کچھ یوں بیان کیا تھا۔

یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ اس وقت لاہور شہر بس اتنا ہی تھا جتنا اب اندرون لاہور ہے۔ اچھرہ ایک الگ بستی تھی۔

مغرب کی نماز میں بستی والوں نے دیکھا کہ ایک اجنبی مسجد میں نماز ادا کر رہا ہے۔ کچھ خیال نہ کیا۔ عشاء کی نماز میں بھی وہ اجنبی موجود تھا۔ تو ایک صاحب کو خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ مسافر ہے۔ اس زمانے میں مسجدیں مسافر خانہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھیں۔ تو انہوں نے سوچا کہ اس مسافر نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔ وہ جلدی جلدی گھر گئے، جو ساگ پات گھر میں موجود تھا لیکر مسجد میں آئے اور اجنبی سے کہنے لگے، “ لگتا ہے آپ مسافر ہیں، اور آپ نے یقیناً کھانا نہیں کھایا ہو گا۔ یہ حاضر ہے تناول فرمائیں۔“

اجنبی نے کہا میں ضرور آپ کا کھانا کھاؤں گا لیکن اس سے پہلے آپ سے چند باتیں پوچھوں گا، انہوں نے کہا پوچھیئے۔ اجنبی نے کہا آپ کرتے کیا ہیں؟ وہ صاحب کہنے لگے کپڑے کی مارکیٹ میں میری کپڑے کی دکان ہے۔ اجنبی کے استفسار پر کہ کتنی آمدنی ہو جاتی ہے، انہوں نے اپنی آمدنی کی تفصیل بتائی کہ ہم نقد پر مال اتنے میں بیچتے ہیں، ادھار پر اتنا سود لیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اجنبی کہنے لگا، معاف کیجیئے گا۔ میں آپ کا لایا ہوا کھانا نہیں کھا سکتا کہ اس میں حرام شامل ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔ گزشتہ سے پیوستہ

وہ صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور اپنا کھانا اٹھا کر واپس آ گئے۔

گھر واپس آ کر انہوں نے اپنے ہمسائے کو پیغام بھجوایا کہ مسجد میں ایک مسافر ہے اسے کھانا بھجوا دیں۔ وہ صاحب اسے اپنے لیے سعادت سمجھتے ہوئے کھانا لے کر جلدی جلدی مسجد پہنچے۔ یہ صاحب ڈنگر ڈاکٹر تھے۔ اجنبی نے ان سے بھی وہی سوال کیا اور کمائی میں حرام کی آمیزش کی بنا پر ان کا کھانا بھی لوٹا دیا۔ یہ صاحب بھی شرمندہ سے واپس آ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پہلے والے صاحب ان کے گھر بیٹھے ہیں کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اجنبی ان کا کھانا بھی نہیں کھائے گا۔ انہوں نے تیسرے گھر پیغام بھجوایا، پھر چوتھے گھر، حتٰی کہ دس بارہ گھروں سے کھانا گیا لیکن واپس آ گیا۔ کہیں نہ کہیں حرام کی آمیزش نکل ہی آتی تھی۔ وہ تمام حضرات اکٹھے ہوئے، شرمسار ہوئے کہ پوری بستی میں ایک بھی گھرانہ ایسا نہیں جہاں سو فیصد حلال کی کمائی ہو۔ وہ سب کے سب اس اجنبی کے پاس گئے اور ان کے سامنے بھی شرمندہ ہوئے اور تائب ہوئے کہ آئیندہ حرام کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ آپ کھانا کھا لیں۔

اجنبی نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ آپ رکھ دیں۔

صبح جب لوگ فجر کی نماز کے لیے مسجد میں گئے تو وہ اجنبی جا چکا تھا۔ لیکن اپنے عمل سے پوری بستی کو سدھار گیا تھا۔

اب آپ بتائیں کہ وہ لاوڈ سپیکر پر کتنا چیخا چلایا، کتنا شور کیا، کچھ بھی نہیں۔ صرف اور صرف اپنے عمل سے اثر انداز ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا وہ واقعہ۔
 
Top