ایک بچگانہ سوال

پاکستانی

محفلین
روزن دیوار سے…عطاء الحق قاسمی


آج کی ڈاک میں ایک دلچسپ خط موصول ہوا ہے اور یہ خط خاور نیازی صاحب کا ہے دراصل یہ خط ایک دس سالہ بچی کے معصوم سے سوالات پرمشتمل ہے جن کا جواب نہ میں دے سکتا ہوں اور نہ کسی اور کے بس میں ہے کہ وہ ان سوالوں کاجواب دے سکے۔ میں نے یہ بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی تھی مگر پھر چوم کر اسے واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ اس سوال کا جواب تو وزیر اعظم شوکت عزیز بھی نہیں دے سکتے کہ وہ کسی اور کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ہم ایسے ہما شما کے سامنے نہیں، صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف بھی شاید ان سوالات کو در خواعتنا نہ سمجھیں جو دس سالہ بچی نے اپنے والد سے پوچھے کہ وہ پہلے ہی ان جواب طلبیوں سے تنگ آئے ہوں گے جن کا سامنا انہیں اندر اور باہر سے کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس مسئلے کو یہیں ٹھپ کردیا جائے کیونکہ بچی نے جو سوال پوچھا ہے وہ اتنا بچگانہ ہے کہ کوئی بڑا اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔خاور نیازی صاحب بطور والد اگر اپنی بچی کو مطمئن کرنا چاہیں تو صرف اتنا کہہ دیں کہ دیکھو کہ بیٹی حکومت کا کام صرف حکومت کرنا ہوتا ہے اور عوام کا کام حکومت کو گلچڑے اڑانے کے لئے رقم کی فراہمی ہے اگر بچی اس جواب سے مطمئن ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ غیر مطمئن تو پوری قوم ہے اس میں ایک بچی کا اضافہ اور سہی۔ بہرحال آپ خط ملاحظہ فرمائیں:
محترم قاسمی صاحب…السلام علیکم!
اس سال ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک چھٹی کے دن گھر پر اپنی سالانہ انکم ٹیکس ریڑن مکمل کررہا تھا۔ میرے ساتھ صوفے پر میری دس سالہ بیٹی اپنا سکول ہوم ورک کررہی تھی مجھے خلاف توقع گھر پر دفتر کاکام کرتے دیکھ کر بچی کچھ دیر تومجھے بغور دیکھتی رہی پھر اس سے رہا نہ گیا اور پوچھنے لگی کہ میں کیا کررہا ہوں؟میں نے اسے بتایا کہ میں انکم ٹیکس کا سالانہ گوشوارہ بھر رہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ بچی اگلا سوال کرتی میں نے خود ہی وضاحت کرڈالی کہ ہمیں ہر ماہ دفتر سے جو تنخواہ ملتی ہے ہم اس کا کچھ حصہ حکومت کے خزانے میں جمع کرادیتے ہیں اور پھر سال کے آخر میں ایک فارم بھر کر حساب کی تفصیل لکھ کر حکومت کو بتاتے ہیں کہ ہم نے سال بھر میں کتنا انکم ٹیکس جمع کرایا ہے اسے انکم ٹیکس کہتے ہیں۔ بچی انکم ٹیکس کا مفہوم تو بخوبی سمجھ گئی لیکن جب اس کی نظر میرے گوشوارے پر پڑی تو ٹیکس کی رقم کو بغور دیکھنے کے بعد اس کا منہ کھلے کا کھلارہ گیا اور بولی بابا!کیا آپ نے اس سال اپنی تنخواہ سے حکومت کو ایک لاکھ اور…؟
میں نے تصدیق کی ہاں تم نے صحیح پڑھا ہے میں نے دیکھا بچی کا تجسس بڑھا وہ اپنا ہوم ورک بھول گئی اور پوچھنے لگی بابا!آپ اپنی تنخواہ سے ہر ماہ حکومت کے خزانے میں اتنی زیادہ رقم کیوں جمع کراتے ہیں؟اور اس کا آخر آپ کو کیا فائدہ ملتا ہے؟
میں بچی کی معصوم باز پرس سے خاصا محفوظ ہوا اور اس کے ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیار تھا۔ میں نے کہا بیٹا اس رقم کے بدلے حکومت ہماری زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرتی ہے، بنیادی سہولتیں دیتی ہے، امن و امان قائم کرتی ہے، سڑکیں، نہریں اور پل وغیرہ بناتی ہے، تعلیم اور صحت کی سہولتیں دیتی ہیں وغیرہ وغیرہ……
میری باتیں سن کر بچی کے چہرے پر مزید کئی سوال اکٹھے ہونے شروع ہوگئے بولی بابا!ہماری سانئس اورسوشل سٹڈیز کی کتابوں میں لکھا ہے کہ پانی تعلیم وغیرہ ہماری بنیادی ضرورتیں ہیں اس طرح تو یہ چیزیں ہمیں حکومت کو مہیا کرنی چاہیں جبکہ آپ پینے کا پانی بازار سے خریدتے ہیں کیونکہ ہمارے علاقے کا پانی پینے کے لائق ہرگز نہیں اگر تعلیم حکومت کے فرائض میں شامل ہے تو پھر آپ پرائیویٹ سکولوں میں بھاری فیسیں دے کر ہمیں پڑھانے پر کیوں مجبور ہیں؟
جہاں تک سڑکوں کی بات ہے تو شہر کے بیشتر علاقوں اور شہر کے باہر جاتے ہوئے جن جن سڑکوں سے واسطہ پڑا ہے ان میں سے اکثر ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں آپ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ اور ان کی مہنگائی کا تذکرہ اکثر گھر پرکرتے رہتے ہیں یہ بھی تو حکومت کا فرض ہے۔ اب رہی امن و امان کی بات تو بابا!آپ کو یاد ہے ناں پچھلے سال جب آپ قصور سے واپس آرہے تھے تو دن کے تین بجے ڈاکوؤں نے مین روڈ پر آپ کو روک کر لوٹ لیا تھا۔
ابھی بچی کا چارج شیٹ بلکہ معصوم چارج شیٹ جاری تھی او ر میرے لئے مزید اس کے سوالوں کا سامنامشکل سے مشکل ہوتا نظر آرہا تھا چنانچہ میں نے بحث کو سمیٹنے کا تہیہ کیا اور کہا بیٹا!ہماری حکومت اپنے فرائض سے غافل ہر گز نہیں ہے وہ دن رات بہتری کی سکیمیں بناتی رہتی ہے۔ ہمارے مسائل کے حل کے لئے مرکز اور صوبوں میں سو سو رکنی کابینہ کے وزیر اور مشیر اس کام کے لئے مقرر ہیں۔ مزید برآں پولیس دن رات ناکے لگا کے بیٹھی ہوتی ہے امن و امان کے لئے ہر وقت تیار اور مستعد نظر آتی ہے اب اگر پھر بھی کچھ مسائل باقی رہ جاتے ہیں تو حکومت کا اس میں کیا قصور؟میں نے دیکھا بچی چہرے پر تجسس اور ناسمجھنے والے جذبات لے کر دوبارہ اپنا ہوم ورک کرنے میں مشغول ہوگئی۔مخلص…خاور نیازی،ڈیفنس ۔لاہور



بشکریہ روزنامہ جنگ 11 دسمبر 2006
 

دوست

محفلین
ہم ترقی کررہے ہیں۔
ماشاءاللہ قیام پاکستان کے وقت جو کابینہ 4 وزیروں پر مشتمل تھی اب وہ سو اراکین پر مشتمل ہے۔
پارلیمانی سیکرٹریوں اور دوسرے تیسری کمیٹیوں کے چئیر مینوں کا کوئی حساب ہی نہیں۔۔۔
 
Top