ایک اور فیصلے کا وقت قریب ہے

پاکستانی

محفلین
اسیّ سالہ بھارتی دانشور کلدیپ نیّر پاکستانیوں پر حیران ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی عمر 24 سال تھی۔ وہ سیالکوٹ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دہلی پہنچے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ پاکستان قائم رہے گا۔ انہیں دہلی پہنچے 60 سال گزر گئے لیکن پاکستان بدستور قائم ہے۔ وہ حیران ہیں کہ 60 میں سے 32 سال تک پاکستان پر فوجی سربراہوں نے حکومت کی۔ سیاسی حکومتوں کا دورانیہ 28 سال رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ کلدیپ نیّر کو فخر ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن انہیں افسوس یہ ہے کہ جب بھارت میں جمہوریت کیلئے ایک کڑا وقت آیا تھا تو بھارت کی سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو پاکستان کے لوگوں نے فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد میں ادا کیا۔ آج بھارت کی عدلیہ ایک فلم ایکٹر سنجے دت کو ناجائز اسلحہ رکھنے کے مقدمے میں چھ سال قید با مشقت کی سزا سنا کر قانون کی بالادستی کے دعوے کر رہی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ سنجے دت ایک مسلمان ماں کا بیٹا ہے ؟ بھارت میں آئین اور قانون کی بالادستی اس وقت کہاں گئی تھی جب 12 جون 1975ء کو الٰہ آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو بد عنوانی کے الزامات میں چھ سال کیلئے نااہل قرار دیا ؟ اندرا گاندھی نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی بجائے 25 جون 1975ء کو تمام انسانی حقوق معطل کرتے ہوئے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی 21 ماہ تک نافذ رہی۔ اس ایمرجنسی کے خلاف بھارت کے وکلاء نے کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں کی۔ کلدیب نیّر اور چند دیگر صحافیوں نے ایمرجنسی کے خلاف لکھا تو انہیں اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا لیکن بھارتی میڈیا نے کلدیپ نیّر کے حق میں ویسی تحریک نہیں چلائی جیسی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف چلائی۔ کلدیپ نیّر کہتے ہیں کہ ایمرجنسی کے خلاف مرارجی ڈیسائی، اٹل بہاری واجپائی، جے پرکاش نارائن اور ایل کے ایڈوانی سمیت کئی سیاستدان سڑکوں پر آئے، ہزاروں افراد کو جیل میں ڈالا گیا لیکن اندرا گاندھی کو کسی سے اتنا خطرہ محسوس نہ ہوا جتنا جنرل ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو سے تھا۔ اگر ایک بھارتی سیاستدان بھٹو کی طرح تختہ دار پر لٹکنے کیلئے تیار ہوجاتا تو اندرا گاندھی کی ایمرجنسی چند دن سے زیادہ نہ چلتی۔ کلدیب نیّر حیران ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کسی عدالت نے ایمرجنسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیا جس کا مقابلہ 20 جولائی 2007ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے ساتھ کیا جا سکے۔ کلدیپ نیّر یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا میڈیا اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں وہ کردار ادا نہ کر سکا جو پاکستانی میڈیا نے جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سال اور جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں ادا کیا۔ ان کے خیال میں آج بھی بھارتی میڈیا کے مقابلے پر پاکستانی میڈیا اپنے محدود وسائل کے باوجود قومی مسائل کو اجاگر کرنے میں زیادہ متحرک ہے اور زیادہ جرأت مندانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ صرف ایک کلدیپ نیّر نہیں بلکہ بہت سے بھارتی مبصرین حیران ہیں کہ ایک ایسا ملک جہاں سیاستدانوں نے کم اور فوجی جرنیلوں نے زیادہ حکومت کی ہے وہاں جاوید ہاشمی کیسے پیدا ہو گیا جس نے جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں چار سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دیئے۔ جاوید ہاشمی وہ شخص ہے جو پاکستان ٹوٹنے سے چند ماہ قبل ڈھاکہ جا پہنچا۔ وہ ناراض بنگالی نوجوانوں سے ملنا چاہتا تھا، انہیں بتانا چاہتا تھا کہ مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت فوجی جرنیلوں کو پسند نہیں کرتی لیکن جاوید ہاشمی سے کہا گیا کہ بنگالیوں سے دور رہو وہ تمہیں گولی مار دیں گے۔ یہ دیوانہ شخص چاک گریبان کے ساتھ سینے پر گولی کھانے کیلئے تیار ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اگر میرے لہو سے کسی کی نفرت کی آگ بجھتی ہے اور پاکستان بچ جاتا ہے تو میں گولی سے نہیں ڈرتا۔ پاکستان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کی خواہش رکھنے والے اس شخص کو موجودہ دور حکومت میں غدّار قرار دیا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ بنانے والوں کو بھی پتہ تھا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں۔ اسے کہا گیا کہ اگر وہ نواز شریف کے ساتھ غدّاری پر راضی ہو جائے تو اسے سیاسی شان و شوکت سے مالا مال کر دیا جائے گا لیکن اسے یہ شوکت کبھی عزیز نہیں رہی۔ وہ انکار کرتا رہا۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی درخواست ضمانت مسترد ہوتی رہی لیکن آخر کار 3 / اگست کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اور تاریخی فیصلے کے ذریعہ جاوید ہاشمی کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ افسوس صد افسوس کہ جاوید ہاشمی چار سال تک پابند سلاسل رہا لیکن قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے ایک مرتبہ بھی جاوید ہاشمی کو اسمبلی کے اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے۔ یہ درست ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے لیکن اسمبلی کی تاریخ کا یہ واقعہ شرمناک ہے۔ اس اسمبلی کا ایک رکن چار سال تک جیل میں تھا ، اس کی رکنیت برقرار رہی لیکن اسے اسمبلی کے اجلاس میں حاضر کرنے کا حکم صادر نہ ہو سکا ؟ اس ایک مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک کمزور اسمبلی تھی، اس اسمبلی نے جاوید ہاشمی کو کوئی عزت نہیں دی لیکن جاوید ہاشمی جیسے بہادر شخص کی رکنیت کے باعث اس اسمبلی کو عزت ضرور ملی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب جاوید ہاشمی رہائی کے بعد قومی اسمبلی میں داخل ہوگا تو اسپیکر چوہدری امیر حسین کس طرح اس کا سامنا کریں گے ؟ اسپیکر صاحب کو چاہئے کہ جب جاوید ہاشمی ایوان میں موجود ہوا کرے تو وہ اپنی کرسی کسی اور کو دیدیا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ دیر اس تکلیف میں مبتلا نہ رہیں۔ جنرل پرویز مشرف کچھ دنوں میں موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ منتخب ہونے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ یہ اعلان سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی زیادہ دن انتظار نہیں کریں گے اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیں گے۔ کلدیپ نیّر مزید حیران ہونے والے ہیں کیونکہ پاکستان میں آئین اور جمہوریت کیلئے جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ منزل بہت دور ہے۔ ایک جاوید ہاشمی تو رہا ہو گیا لیکن ابھی جاوید ہاشمی کو اختر مینگل اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں کی رہائی کیلئے مزید جدوجہد کرنی ہے۔ ان سب پر بھی بغاوت کے مقدمے ہیں۔ ابھی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی رہا کروانا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی پر پاکستان کے دشمن خوش نہیں ہوں گے اور اسی لئے مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے دشمن اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے۔ کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دشمن جاوید ہاشمی کا بھی دشمن ہے ؟ کیا دونوں غدّار ہیں ؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر دیا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے بعد تاریخ کو بھی ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ انہیں نظر بند کرنے والوں کے بارے میں ہو گا اور اس فیصلے کا وقت بھی قریب ہے۔
قلم کمان… . . . حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
 
Top