ایک اور غزل

بحر: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن


مشتاق ہیں ہم طالبِ دیدار ہوئے ہیں
کوچے سے ترے صبح سے سو بار ہوئے ہیں
(یعنی ہو آئے ہیں. کیا ایسا استعمال درست ہے)

ہم عشقِ صنم میں جو گرفتار ہوئے ہیں
اللہ کی قسم سخت گنہگار ہوئے ہیں

دنیا سے بھی فردوس سے بھی موڑ کے منھ ہم
اے یار فقط تیرے طلبگار ہوئے ہیں

دنیا تو قمر پر ہے مگر اب بھی ادھر تو
عظمت کا نشاں جبہ و دستار ہوئے ہیں

ہم نے ہے کہا خلق کو جینے دو خدارا
مرنے کے اسی بات پہ حقدار ہوئے ہیں

کافر ہے فلاں بدعتی گستاخ فلاں ہے
ہم فتووں سے ملا کے تو بیزار ہوئے ہیں

ملتا ہی نہیں کام کا انسان کوئی اب
سب لوگ یہاں صاحبِ گفتار ہوئے ہیں

سوتے میں تو آتے ہی نہیں خواب ہمیں پر
خوابوں میں ہیں گم جب سے کہ بیدار ہوئے ہیں

پہنچاتے ہیں منزل پہ مگر کون سے رستے
ریحان چلو ان پہ جو پرخار ہوئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کے علاوہ باقی اشعار درست ہیں ریحان۔ بس
سوتے میں تو آتے ہی نہیں خواب ہمیں پر
خوابوں میں ہیں گم جب سے کہ بیدار ہوئے ہیں
پہلا مصرع ’ہمیں پر‘ کی وجہ سے چست نہیں لگ رہا۔ کلاسیکی طرز بیان میں ’ہمیں پر‘ کی جگہ ’ولیکن‘ لایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس میں ’ہمیں’ نہیں آتا مفہوم میں۔
 
آخری تدوین:
بہت نوازش جناب.
مطلعِ ثانی کو ہی مطلع کر لوں؟
اور کیا وہ شعر ایسے ٹھیک رہے گا
سوتے میں ہمیں آتے نہیں خواب ولیکن
خوابوں میں ہیں گم جب سے کہ بیدار ہوئے ہیں
 

الشفاء

لائبریرین
اگر مطلع یوں ہو جائے کہ
مشتاق ہیں ہم طالبِ دیدار ہوئے ہیں​
قربان ترے کوچے پہ سو بار ہوئے ہیں

اور یہ شعر
دنیا سے بھی فردوس سے بھی موڑ کے منھ ہم
اے یار فقط تیرے طلبگار ہوئے ہیں
دنیا سے بھی جنت سے بھی منہ موڑ کے ہم تو
اے یار فقط تیرے طلب گار ہوئے ہیں۔
 
اگر مطلع یوں ہو جائے کہ
مشتاق ہیں ہم طالبِ دیدار ہوئے ہیں​
قربان ترے کوچے پہ سو بار ہوئے ہیں

اور یہ شعر

دنیا سے بھی جنت سے بھی منہ موڑ کے ہم تو
اے یار فقط تیرے طلب گار ہوئے ہیں۔
بہت شکریہ جناب ویسے میں نے دوسرا شعر اصل میں ایسے ہی کہا تھا پر بعد میں تبدیل کر دیا تھا۔ "تو" مجھے اشعار میں زیادہ اچھا نہیں لگتا لیکن اس طرح محاورہ صحیح ادا ہو جائے گا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
خوب است!!

بہت شکریہ جناب ویسے میں نے دوسرا شعر اصل میں ایسے ہی کہا تھا پر بعد میں تبدیل کر دیا تھا۔ "تو" مجھے اشعار میں زیادہ اچھا نہیں لگتا لیکن اس طرح محاورہ صحیح ادا ہو جائے گا۔

دنیا تو قمر پر ہے مگر اب بھی ادھر تو
عظمت کا نشاں جبہ و دستار ہوئے ہیں

کافر ہے فلاں بدعتی گستاخ فلاں ہے
ہم فتووں سے ملا کے تو بیزار ہوئے ہیں

سوتے میں تو آتے ہی نہیں خواب ہمیں پر
خوابوں میں ہیں گم جب سے کہ بیدار ہوئے ہیں


کیا آپ کو واقعی "تو" پسند نہیں؟ o_O

ویسے تو ، جو ، ہی اب وغیرہ سب بھرتی کے ہیں یہاں کچھ غور و حوض سے غزل مزید نکھر جائے گی

 
Top