ایک اور غزل اصلاح کی طلبگار ہے

شمس

محفلین
لبوں کا رس تو گویا قیاس ہے
اپنے لہو کی ہر چھینٹ میں مٹھاس ہے

بارش کی پہلی بوند کی خوشبو
اِک خوشگوار دن کی دِلاس ہے

سارے بدن کا خون نچوڑ کر بھی
کہتا ہے قاتل، بہت سا ماس ہے

اِن آنکھوں کی شبنم ِبکھرتے دیکھ کر
گلشن کا ہر اِک گوشہ اُداس ہے

کبھی دوڑتا ہوں تتلیوں کے پیچھے
کبھی بے بہا تھکن کا احساس ہے

اِک دوست کی دوستی کچھ اِس طرح سے ہے
دل بہت دور پر جسم پاس ہے

قبر کی مٹی سونے کے تول بِکتی ہے
کسی کو مخمل، کسی کو لٹھا راس ہے

قطرہ قطرہ گھٹ رہی ہے زندگی
ساحر کو جب سے سفر کی پیاس ہے​
 
Top