ایک انجان وفا یاد آیا - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

ایک انجان وفا یاد آیا
ایک انجام جفا یاد آیا

آج دیکها تیرے ہاتھوں میں گلاب
پوچھ مت ہم سے کہ کیا یاد آیا

میں اسے دل میں بسا بیٹهی ہوں
پس دیوار انا یاد آیا

پهول مہکیں، لے گهٹا انگڑائی
باولی سی ہے ہوا یاد آیا

وقت بهی کس سے وفا کرتا ہے
دیکه موسم کی ادا یاد آیا

وقت رخصت وہ پلٹتا لیکن
جاتے جاتے اسے کیا یاد آیا

رات خاموش سی، تارے مدهم
تو بهی کب جان وفا یاد آیا

نیند بهی خواب ہوئی ہے جب جب
اپنے خوابوں کا صلہ یاد آیا

کوئی ارمان چهپا ہے دل میں
جب چلی باد صبا یاد آیا
 

شوکت پرویز

محفلین
ایک بار پھر اچھی غزل اور۔۔۔
ایک بار پھر وہی تیرے تِرے والا معاملہ :oops: :
آج دیکها تیرے ہاتھوں میں گلاب
پوچھ مت ہم سے کہ کیا یاد آیا
۔۔۔۔۔۔
میں اسے دل میں بسا بیٹهی ہوں
پس دیوار انایاد آیا
اور یہاں "یاد آئی" آئے گا :) ، پر ہائے رے ردیف۔۔۔
شاید یہاں یہ چل جائے (ناٹ شور :) )، حالانکہ بات بالکل بدل گئی ہے۔۔۔
اور اُسے گھر کا پَتا یاد آیا
:)
 
بہت شکریہ جی :)

تیرے اور ترے کو ٹهیک کر لیتی ہوں.

دوسری بات جو آپ نے کی، "انا کی دیوار کے دوسری طرف مجھے یہ یاد آیا کہ...."
سادہ الفاظ میں ایسے کہہ سکتی ہوں.
اگر یہ درست اردو نہیں ہے تو ضرور بتائیے گا :)
 
Thank you for the appreciation!
Unfortunately, this ghazal too apparently is almost exactly following a pattern in which Faraz Sahab wrote!

آج گزرے ہوئے شعراء کی روحیں شاید میرے آس پاس منڈلا رہی ہیں!

حیرت کی بات یہ ہے کہ فراز صاحب کی یہ والی غزل میں نے پڑھی تک نہیں ہے...

بہرحال.. لکهنا enjoy کیا میں نے. جو کہنا چاہتی تهی کہہ پائی. مگر غزل unfortunately ضائع ہو گئی..
 

شوکت پرویز

محفلین
مگر غزل unfortunately ضائع ہو گئی..
غیر متفق!
کیوں بھئی، غزل کیوں ضائع ہو گئی؟؟؟؟
کسی اور کی زمین استعمال کرنا (فی نَفسِہِ) کوئی عیب یا حسن نہیں، بلکہ عیب یا حسن آپ کے کہے گئے کلام میں ہوتا ہے۔ اور آپ کا یہ کلام (اور اس دوسرے دھاگہ والا کلام بھی) کم از کم ضائع کی کیٹیگری کا تو نہیں۔۔ (y)
زمین: کلام کے ردیف و قافیے اور بحر
 

محمداحمد

لائبریرین
ایسا بھی ہوتا ہے کبھی کبھی ۔۔۔۔۔! :)

بڑے شعراء کی زمینوں میں غزل کہنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں پر ان غزلوں کا تاثر بڑا گہرا ہوتا ہے۔

تاہم مضامین میں تھوڑی سی احتیاط کرتے ہوئے کہنے میں حرج نہیں ہے۔
 
Thank you so much for the encouragement! I believe the similarities are too great to be ignored, so I've been told..!

بہرحال، میں نے سوچا کہ اس قسم کی تنقید سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ کچھ تبدیلی کردی جائے.. سو..


آج پھر سے وہی انجان وفا یاد آیا
ایک بهولا ہوا انجام جفا یاد آیا

دیکهتی ہوں ترے ہاتھوں میں دہکتی کلیاں
پوچھ مت اب کے انہیں دیکها تو کیا یاد آیا

ہے حقیقت میں اسے دل میں بسا بیٹهی ہوں
یہ بهی لیکن پس دیوار انا یاد آیا

آج ہر سو پهول مہکیں، لے گهٹا انگڑائی
ایسی رت میں باولی سی ہے ہوا یاد آیا

وقت بهی کس سے مرے دوست وفا کرتا ہے
آج مجھ کو دیکه موسم کی ادا یاد آیا

ہاں یقیناً وقت رخصت وہ پلٹتا لیکن
کیسے کہہ دوں جاتے جاتے اسے کیا یاد آیا

رات خاموش سی، غمگین ستارے مدهم
آج دل کو تو بهی کب جان وفا یاد آیا

نیند بهی خواب سی ہوتی گئی جب سے جاناں
مجھے بے باک سے خوابوں کا صلہ یاد آیا

اب تلک ہے کوئی ارمان چهپا سا دل میں
چلی لہرا کہ جو پهر باد صبا، یاد آیا
 

شوکت پرویز

محفلین
اب بہتر ہے سارہ صاحبہ !
لیکن ان مصرعوں کی دوبارہ تقطیع کرکے دیکھیں :)
آج ہر سو پهول مہکیں، لے گهٹا انگڑائی
ایسی رت میں باولی سی ہے ہوا یاد آیا

آج مجھ کو دیکه موسم کی ادا یاد آیا

ہاں یقیناً وقت رخصت وہ پلٹتا لیکن
کیسے کہہ دوں جاتے جاتے اسے کیا یاد آیا
 

الف عین

لائبریرین
پہلی صورت ہی زیادہ چست و رواں ہے۔ زیادہ سے زیادہ روح فراز سے معذرت کر لو، اور اسی کو چلنے دو۔ لمبی بحر میں بھرتی یا پاسنگ کے الفاظ زیادہ ہیں۔ اس لئے میں پچھلی صورت کو ہی تفصیل سے دیکھنا پسند کروں گا۔

ایک انجان وفا یاد آیا​
ایک انجام جفا یاد آیا​
÷÷واہ الفاظ کا استعمال بہت خوب ہے، اگرچہ فنی طور پر ایطا کا سقم بھی ہے۔ دونوں قوافی ’فا‘ پر ختم ہو رہے ہیں، جب کہ پوری غزل میں یہ التزام نہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اسی شعر کو چلنے دو، کہیں شائع ہو تو ایک فٹ نوٹ کے ساتھ۔ ’ایطا کا مجھے احساس ہے‘۔

آج دیکها ترے ہاتھوں میں گلاب​
پوچھ مت ہم سے کہ کیا یاد آیا​
÷÷دوسرا مصرع روانی چاہتا ہے
ہم سے مت پوچھ کہ کیا ۔۔۔۔۔

میں اسے دل میں بسا بیٹهی ہوں​
پس دیوار انا یاد آیا​
÷÷درست۔

پهول مہکیں، لے گهٹا انگڑائی​
باولی سی ہے ہوا یاد آیا​
۔۔دونوں مصرعوں میں tense کا فرق ہے۔ پہلے میں تمنائی، اور دوسرے میں محض بیانیہ۔ کیا یاد آیا؟ کیا محض یہی کہ ہوا باؤلی سی ہے؟

وقت بهی کس سے وفا کرتا ہے​
دیکه موسم کی ادا یاد آیا​
۔۔دیکھ کر‘ درست ہوتا جو یہاں فٹ نہیں ہوتا۔ الفاظ بدلنے کی کوشش کرو، ورنہ اس کو بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔

وقت رخصت وہ پلٹتا لیکن​
جاتے جاتے اسے کیا یاد آیا​
بیانیہ واضح نہیں ہے، پہلا مسرع یوں ہو
وقت رخصت وہ پلٹ جاتا، مگر

رات خاموش سی، تارے مدهم​
تو بهی کب جان وفا یاد آیا​
۔۔رات خاموش ہے‘ کہنے میں کیا مشکل ہے؟ سی‘ میں گرامر کی رو سے بات نا مکمل لگتی ہے

نیند بهی خواب ہوئی ہے جب جب​
اپنے خوابوں کا صلہ یاد آیا​
۔۔’جب جب‘ کو بدلنے کی کوشش کرو۔
نیند جب جب بھی مری خواب ہوئی
بہتر ہے، لیکن اس میں بھی جب بھی میں ’ب‘ کی تکرار کا سقم ہے۔ کچھ مزید سوچو۔

کوئی ارمان چهپا ہے دل میں​
جب چلی باد صبا یاد آیا​
۔۔درست​
 
Top