ایک امتی

محمد مسلم

محفلین
ایک امتی
مراکش سے لے کر انڈونیشیا کے دور دراز کے جزیروں تک چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم، خود کو ایک قوم سمجھنے کی بجائے مختلف قومیتوں میں تقسیم کیے ہوئے، اور ہر قومیت دوسری کو مشکوک نظروں سے دیکھتی ہوئی۔ جو ذرا بڑے ملک ہیں ان میں مختلف قبیلوں اور گروہوں کو ابھار کر نئی قومیتیں تخلیق کروانے کی مسلسل کوششیں، یہ امتِ مسلمہ کی ایک عمومی تصویر ہے۔ ایک امت ہونے کے باوجود ساٹھ سے زائد ملکوں میں تقسیم ہیں۔ ایک نبی، ایک قرآن، ایک خدا کو ماننے والے سینکڑوں قومیتوں میں بٹ گئے جس کی طرف اقبالؒ نے اشارہ کیا تھا کہ
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی افغان بھی
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
کیا یہ بات عجیب نھہیں کہ قومیتوں کی جھگڑے آج کل سب سے زیادہ اسلامی ممالک میں ہی ہیں۔ لسانیت کے سانپ بھی اسلامی ممالک میں سرسرا رہے ہیں، فرقہ واریت دوسرے مذاہب میں ہو تو ہو لیکن اپنی بد ترین شکل میں انہیں ممالک میں موجود ہے۔ مسلمان کہلانے والے بعض لوگ اس بات پر فخر کریں ‘‘نحن ابناء الفراعنہ‘‘ کہ ہم فرعونوں کی اولاد ہیں، بعض راجہ داہر کی اولاد میں ہونے پر فخر کریں، بعض راجہ رنجیت سنگھ سے اپنے تعلق پر پھولے نہ سمائیں۔
لیکن اس سب کے باوجود امتِ کے اکثر افراد کے دل ایک ہی انداز میں دھڑکتے ہیں، ہمارے درمیان ایک غیر مرئی لیکن بہت مضبوط تعلق موجود ہے۔ آج کونسا مسلمان ہے جو فلسطین، کشمیر، لبنان، بوسنیا، افغانستان، عراق، لیبیا، صومالیہ اور اراکان کے حالات پر غمگین نہ ہوتا ہو۔
ہمارے درمیان لاکھ اختلافات لیکن ایک کلمہ سب کے دکھ درد کو سانجھی کر دیتا ہے۔ لاکھ اغیار کا پروپیگنڈہ ہو یا حقائق کہ پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالیوں کا قتلِ عام کیا، لیکن موجودہ ورلڈ کپ میں بنگلہ دیشی عوام کا پاکستانی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنا نفرت کی دیواریں گرا دیتا ہے۔ ہماری زبان ایک نہیں، ہماری جسامت، رنگ اور نسل میں فرق ہے لیکن ایک کلمے کی بنیاد پر ہم اکٹھے ہیں۔ ہمارے دل اب بھی ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے ہیں۔ یہی کلمہ ہے جس کے باعث سری لنکا کے مسلمانوں نے پاکستان اور سری لنکا کے میچ کے دوران پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے جس کی بنا پر ورلڈ کپ میں جمیعۃ علمائے سیلون کو سری لنکا کے مسلمانوں سے اپیل کرنا پڑی کہ اپنے ملک سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ایمان ہی ہے جو پاکستان کی ٹیم کی فتح پر کشمیر اور ہندوستان کے دوسرے مقامات پر موجود پاکستانیوں کو اﷲ اکبر کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتا ہے۔ پاکستان کی ٹیم نہ تو کوئی آئیڈیل مسلمان ہو گی، ان میں لاکھ خامیاں ہوں گی، وہ بہت سے اسلامی اصولوں کی پاسداری نہ کرتی ہو گی لیکن ہے تو مسلمان۔ ایسے مسلمان جو عمل کے معاملے میں پیچھے ہوں لیکن امت کے لیے درد رکھنے والے ہوں اور اتحاد و اتفاق کے لیے کام کر رہے ہیں ان با عمل مسلمانوں سے زیادہ بہتر ہیں جن کے ماتھے پر سیاہ محراب سجدوں کی اثر ہوں، ہاتھوں میں تسبیح ہو لیکن دل کینے اور تعصب سے خالی نہ ہوں، زبانیں سانپ کی مانند مخالفوں پر پھنکاریں۔
یہ امت ہونے کا احساس نفرتوں کی شبِ تاریک میں ایک قندیلِ ایمانی ہے جو امتِ مسلمہ کے روشن مستقبل کی نوید دے رہی ہے۔ لاکھ اغیار لڑانے کے درپے ہوں لیکن کلمہ پھر سب کو متحد کر دیتا ہے۔ بھائیوں میں دوریاں بھی محبت میں اضافے کا موجب بن جایا کرتی ہیں۔ آئیں امتی بنیں، ایک کلمے پر اتفاق کریں، اختلافِ باہمی کو برداشت کرنا سیکھیں، دل کو وسیع کریں۔
 
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب مسلم بھائی! آپ کے اس رپورتاژ کے بعد آپ ہی کی فورم پر پیش کی گئی نعیم صدیقی صاحب کی نظم پڑھی، دل باغ باغ ہوگیا۔ آج مسلمان بیدار ہورہے ہیں ، کچھ بڑی بات ہے کہ سب بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجائیں، نہ ایرانی رہے باقی نہ افغانی نہ تورانی۔
۔۔۔۔۔۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
۔۔۔
دعاگو
محمد خلیل الرحمٰن
 

محمد مسلم

محفلین
خزینہ بھائی حوصلہ افزائی کا شکریہ، حقیقت یہ ہے کہ ہم اگر اپنے آپ سے شروع کریں تو ہمیں بہت سے اچھے لوگ قدم قدم پر مل جاتے ہیں جو عزم کو بلند کرتے ہیں اور سفر کو تیز تر کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اﷲ آپ کو سلامت رکھے۔ ویسے آپ کی نعت آپ کے بلاگ پر پڑھی، بڑی مزیدار تھی، خوشی ہوئی کہ آپ اچھے شاعر بھی ہیں۔ وہاں شاید کوئی مسئلہ تھا کہ اردو میں کمنٹس پوسٹ نہیں ہو رہے تھے۔
 
Top