ایٹمی یرغمال از ڈاکٹر محمد طیب خان۔۔

حاتم راجپوت

لائبریرین
پاکستان و بھارت کے 1998میں ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی یہاں کی اقوام بھی ایٹمی یرغمال بن گئے، یہ خیال بھی پروان چڑھا کہ دونوں ممالک میں اب کبھی جنگ نہیں ہوگی اور اگر ہوئی تو وہ دونوں ممالک کے لیے آخری و حتمی معرکہ ہوگا، جنگیں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوئیں، جنگوں میں نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے، انسان ہی مرتے ہیں، ممالک و اقوام تباہ و برباد ہوتے ہیں اور بالآخر ندامت و پشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تھک ہارکر جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ امن معاہدوں پر اکتفا کرتے ہیں اور امن و سکون کو ہی غنیمت جانتے ہیں۔

آپ ان اقوام سے پوچھیے جنہوں نے دو عالمی جنگیں لڑیں، تباہ و برباد ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں جانی ومالی نقصان ہوا، کچھ خیر ہاتھ نہ آیا، شر ہی شر سب کچھ کھا گیا، جو بچ رہے انھیں امن و امان و سکون کی قدروقیمت کا شدت سے احساس ہوا اور آج وہ جنگ کے نام سے بھی کانپتے ہیں۔

پاک بھارت سرحدی علاقوں میں جو جھڑپیں اور بیان بازی چل رہی ہے اور بھارت کا جو جنگی و ایٹمی جنون پاگل پن کی انتہا کو پہنچ گیا ہے وہ اگر خدانخواستہ کسی بڑی جنگ کی صورت اختیار کرگیا تو پھر یہ دونوں ممالک و اقوام کے لیے تو مہلک ثابت ہوگا ہی تاہم پوری دنیا پر بھی اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی تحقیقاتی ادارے نے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی اہم تحقیقی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ چھڑگئی تو اس سے پوری دنیا کا موسم تبدیل ہوجائے گا۔ امریکی ریاست نیوجرسی کی اتگرز یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن ربوک نے تجزیہ کیا تھا کہ پاک بھارت جوہری جنگ سے پوری دنیا کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور دنیا میں 10 فیصد بارشوں میں کمی واقع ہوگی۔

ریسرچ میں کہا گیا تھا کہ ایسی جنگ سے دنیا بھر کی آب و ہوا تبدیل ہوجائے گی، جوہری دھماکوں سے اٹھنے والے بادل پوری دنیا کے درجہ حرارت پر اثرانداز ہوں گے اور ان سے مذکورہ خطے کے علاوہ دور دراز کے ممالک تک میں مضر و بدترین اثرات پڑیں گے، دنیا بھر کی زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوجائے گی۔ پروفیسر ایلن ربوک کے مطابق کمبوڈیا، تھائی لینڈ بھی اس سے متاثر ہوں گے، جوہری جنگ سے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھے گی جس میں تیل، پلاسٹک اور لکڑیاں جلنے سے بڑے پیمانے پر دھوئیں کے بادل اٹھیں گے اور گرمی کی شدت میں انتہائی اضافہ ہوجائے گا۔

انھوں نے واضح کیا کہ بیس سال میں کی گئی یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد تحقیق ہے، اس کے علاوہ کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر اون برین ٹون کی سربراہی میں ہونے والی ایک دوسری تحقیقی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان و بھارت کو خبردار کیا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہیروشیما میں گرائے گئے بموں جیسے ہی دھماکے ہوئے تو ان دھماکوں سے بھی 90 لاکھ تا ایک کروڑ 25 لاکھ بھارتی شہری جب کہ 65 لاکھ تا 90 لاکھ پاکستانی شہری لقمہ اجل بن جائیں گے اور اگر زخمیوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد دگنا ہوجائے گی۔ ان رپورٹوں میں دونوں ممالک کے لیے عبرت کا سامان اور امن کا پیغام عیاں ہے، بالخصوص بھارت کو اپنے ایٹمی و جنگی جنون کو ترک کرکے مذاکرات کی جانب توجہ دینی چاہیے، دوررس اور موثر ترین امن معاہدے عمل میں لانے چاہئیں اور مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی جانب وقت ضایع کیے بغیر فوراً پیش قدمی کرنی چاہیے۔

پاکستان و بھارت ہی نہیں، دنیا میں اور بھی ایٹمی ممالک ہیں جن کی وجہ سے صرف وہاں کے عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔ اس کرہ ارض پر حضرت انسان نے اپنے قیام کے عرصے میں خطرناک ارتقائی سامان جمع کرلیا ہے، جیسے جارحیت اور رسم پرستی کی طرح موروثی رجحان، رہبروں کی اطاعت اور غیرملکیوں سے معاندانہ رویہ وغیرہ۔ اس طرز عمل نے ہماری بقا کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ ذرا غور کیجیے تو ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ایٹمی جنگ سے خوف کھاتا ہے اور پھر بھی ہر تکنیکی ریاست اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے، ہر ایک جانتا ہے کہ یہ پاگل پن ہے اور اس کے باوجود ہر قوم کے پاس اس کا عذر موجود ہے۔ یہ عذر خواہی کا ایک بڑا بے کیف سلسلہ ہے۔

مثال کے طور پر جرمن ایٹم بم کی تیاری پر دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے ہی کام کر رہے تھے لہٰذا امریکیوں کو جرمنوں کے مقابلے میں پہل کرنا پڑی۔ جب امریکیوں نے ایٹم بم بنایا تو روسی کیوں پیچھے رہتے؟ اور پھر برطانیہ، فرانس، چین، اسرائیل، بھارت، پاکستان، ایران اور شمالی کوریا غرض اکیسویں صدی کے آغاز تک کئی اقوام نے ایٹمی ہتھیار جمع کرلیے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، انشقاق پذیر مادہ، تابکاری کی حامل اشیا سے ملتا ہے اور وہ حاصل کرلیا گیا ہے۔ یوں ایٹمی ہتھیار تقریباً گھریلو دست کاری بن چکے ہیں اور ایک گھریلو دستکار صنعت کا درجہ اختیار کرنے جارہے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے روایتی بم، بلاک بسٹرز کہلاتے ہیں۔ 20 ٹن ٹی این ٹی سے بھرے ہوئے یہ بم پورا شہر تباہ کرسکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جتنے شہروں پر بم گرائے گئے ان میں کل دو میگا ٹن ٹی این ٹی استعمال ہوئی، جتنی اموات 1939 سے 1940 کے درمیان آسمان سے برسیں، وہ دو میگا ٹن آتشیں اسلحہ یا ایک لاکھ بلاک بسٹرز تھے۔ بیسویں صدی کے آخر میں ایک عام تھرمو نیوکلیئر دھماکے میں دو میگا ٹن ٹی این ٹی بھری جانے لگی یعنی صرف ایک بم میں پوری دوسری جنگ عظیم کی تباہی۔۔۔۔ لیکن اب تو ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکا کے جنگی میزائل اور بمبار قوتیں اپنے لیے پندرہ ہزار طے شدہ ہدف رکھتی ہیں۔

اس نازک سیارے پر کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ موت کے جن صرف چراغ رگڑے جانے کے منتظر ہیں۔ ان ہتھیاروں میں کل توانائی دس ہزار میگا ٹن سے بھی کہیں زیادہ ہے اور کل آتشیں اسلحہ محض چند گھنٹوں میں تقسیم ہونے کے لیے تیار ہے یعنی اس سیارے کے ہر خاندان کے لیے ایک بلاک بسٹر، ایک آرام دہ دوپہر کے ہر سیکنڈ میں ایک دوسری جنگ عظیم چھپی ہے۔ ایٹمی حملے سے آنیوالی موت کے فوری اثرات آتشیں جھونکے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، جو کئی کلومیٹر تک بڑی مضبوط اور قوی البنیاد عمارات کو زمین بوس کردیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ اثرات گاما شعاعوں، آتشیں طوفان اور نیوٹران کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، جو اردگرد کے تمام انسانوں کو جلاکر بھسم کردیتے ہیں۔موجودہ حالات کیمطابق یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر 5 منٹ بعد ایک فرد قتل ہوتا ہے، انفرادی ہلاکتیں اور بڑی جنگیں دراصل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ دراصل بڑے پیمانے پر قتل کی ہی ایک شکل ہے۔

جب ہماری بہبود کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے یا جب اپنے بارے میں ہمارا مثالی بھرم ٹوٹتا ہے تو ہم غضبناک ہوکر قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ جب ان حالات کا اطلاق قوم پر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح کردیتی ہے اور یوں سربرآوردہ لوگ اسے دو آتشہ کرکے طاقت یا فوائد حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے قتل و غارت گری کی ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے، جنگ کے نقصانات بڑھتے جارہے ہیں۔ یوں ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ قیامت صرف چند عشرے ہی دور ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے نشانہ باز ایک روز ہمیں ضرور عالمی تباہی سے دوچار کریں گے، ان ہی کی بدولت آج کل انسانیت کرہ ارض پر مکمل طور پر ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی ہے۔ کیا واقعی ہم نے یہ ترقی کی ہے؟ کیا ہم نے عقل سے جنون کو باندھ دیا ہے؟ کیا ہم نے حقیقتاً جنگ کے اسباب کا جرأت مندانہ جائزہ لیا ہے؟ ہم اپنی ابھرتی ہوئی تہذیب پر ایک ایٹمی جنگ اور ہولناک و عبرتناک عالمی تباہی مسلط کر دینے پر تلے بیٹھے ہیں تو کیا ہمیں ایک انتشار آمادہ معاشرے کی تعمیر نو کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہیے؟ مجھے یہاں ایچ جی ویلز کی بات یاد آرہی ہے۔ اس نے کیا خوب کہا کہ ’’ہمارا انتخاب یا تو کائنات ہوگی یا کچھ بھی نہیں‘‘۔

ربط۔
 
Top