’’قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 کے ضمنی انتخاب کے سرکاری نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کنورنوید نے 95 ہراز 644 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ افسر کی جانب سے جاری کیے گئے ضمنی انتخابات کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل 22 ہزار 821 ووٹوں کے ساتھ دوسرے جبکہ جماعت اسلامی کے راشد نسیم 9 ہزار 56 ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے ہیں۔‘‘
(ڈان ڈاٹ کام)
پچھلے الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی ایم کیو ایم کے پاس لیول پلے ائنگ فیلڈ موجود نہیں تھی
- پچھلی مرتبہ طالبان کی دھمکیوں کے باعث کئی پارٹیاں اپنی الیکشن مہم نہ چلا سکیں جبکہ ان کی آشیر باد حاصل کرنے والی پارٹیوں نے بھرپور مہم چلائی۔ اس مرتبہ اس کے خلاف حکومتی اداروں کا ایکشن جاری ہے
- اس کے کسی مطالبے کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا جبکہ دونوں مخالفین کوہر وہ سہولت مہیا کی گئی جس کا انہوں نے مطالبہ کیا بشمول رینجرز کی تعیناتی اور ویڈیو کیمروں کی تنصیب۔
- سخت چیکنگ کے باعث پولنگ کا عمل سست روی کا شکار رہا اور بہت سے ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے سے رہ گئے۔
- اس الیکشن کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر مخالفین کے سیاسی قد کو ابھارنے کا کام بذریعہ چینلز کیا گیا۔
اس تمام کے باوجود ایم کیو ایم نے تقریباً چھیانوے ہزار ووٹ حاصل کیے، جو ان کے پچھلے ریکارڈ سے بہر حال کم ہونے کے باوجود تمام ٹی وی تجزیوں کے برعکس بہت زیادہ ہیں۔اس نتیجہ سے ان کےپچھلی مربتہ اس حلقہ میں بوگس ووٹ ڈلوانے کا الزام بھی کسی حد تک ثابت ہوتا ہے۔
اس کے برعکس جماعت کے ووٹ وہی ہیں جو پچھلے الیکشن میں تھے یعنی یہ نو دس ہزار ووٹر جماعت کے وفادار کارکن ہیں جو کسی بھی قیمت پر جماعت کو ووٹ دینے کے لیے نکلیں گے، لیکن اس کی تعداد بڑھ نہیں رہی ہے۔
ادھر لمحہ فکریہ تحریکَ انصاف کے لیے ہے کہ پچھلے الیکشن میں ایک نظریاتی خواب دکھانے والی جماعت کے طور پر ابھرے اور یہاں سے ۳۵،۰۰۰ ووٹ لے اڑے لیکن اب ان کے ووٹوں میں واضح کمی ( اس مرتبہ صرف ۲۵،۰۰۰ ووٹ ہی لے سکے) اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی منفی سیاست رنگ لارہی ہے اور ووٹر ان سے بددل ہوکر ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔