ایمان کی قندیل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

عزیز دوستوں!۔
اسلامی عقیدہ، جو کہ بعثت انبیاء کے مقصد سے آشنائی پانے کا نام ہے اور وجود میں الٰہئی منصوبہ کے رازوں سے آگاہی پا لینے کا، جب اختیار کیا جاتا ہے تو وہ انسان کے ایک نئے جنم کا اعلان ہوتا ہے۔

کذلک الایمان اذا خالطت بشاشتہ القلوب
یہ کوئی ’اعمال‘ کے ڈھیر لگا دینے کا پروگرام نہیں ہوتا۔ یہ ’ورد‘ اور ’وظیفوں‘ کی ریاضت نہیں۔ ایمان کوئی ’تنظیمی‘ عمل نہیں۔ یہ کوئی ’مناظرانہ‘ سرگرمی نہیں۔ ’دلائل‘ لاکھڑے کرنے کا نام نہیں۔ ’علمی نکتے‘ بیان کرنے کرانے کا شغل نہیں۔ ’ایمان‘ ایک حُسن ہے جو نفس میں عقیدہ کے حقائق جاگزیں ہو جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی صفات سے لو پانے کا ایک فطری انعکاس ہے۔ اللہ کی تعظیم وتکبیر اور تسبیح وتمجید اور توحید وتقدیس کا وہ نبوی سلیقہ ہے جو انسان کی ہستی کو ملائکہ سے ایک نسبت دے جاتا ہے۔ اللہ کے ماسوا ہستیوں کی بڑائی اور پرستش سے بے زار ہو جانے کی وہ پاکیزگی ہے اور اس کامل بے عیب ذات کو تنہا مقصود اور یکتا معبود بنا لینے کی وہ لطافت جو انسان کو ملی ہے تو پھر اس کے وجود میں ہر پہلو سے بولتی ہے اور یہ تو معلوم ہے کہ انسانی وجود کرہ ارض پر ہزارہا پہلوؤں سے اپنا پتہ دیتا اور اپنے آثار چھوڑتا ہے۔ باطن کی خوبی ظاہر میں بھی آپ سے آپ جھلکتی ہے۔ یہاں تک کہ افکار واعمال، طرز بودوباش اور اسلوب تعامل ہر ہر معاملہ میں ___ زندگی کے سب ہنگاموں میں شریک رہتے ہوئے اور یہاں کی سب ناہمواریوں سے گزرتے ہوئے بھی ___ اس کی ذات حسن اور پاکیزگی کی ہی آماجگاہ رہتی ہے۔ یہ اپنے نفس کے شر سے اللہ کی پناہ میں آتا ہے تو ماحول کی آلائش سے صاف ہونے کی بھی سعی کرتا ہے۔ نماز کے عمل سے گزر کر اپنا آپ اجلا کرتا ہے۔ زکوٰۃ کی راہ سے نفس کی میل اتارتا ہے۔ استغفار سے اپنا باطن دھوتا ہے۔ دُعا اور ذکر سے اس کو نکھارتا ہے اور سنوارتا ہے۔ صداقت سے اپنی خوبی اور اچھائی بڑھاتا ہے.... اس کا ایک امتحان البتہ یہ بھی ہے کہ یہ زمین کی خارجی خوبصورتی میں کتنا اضافہ کرکے آتا ہے۔ یعنی ’اخلاق‘ اور ’تہذیب‘ کی راہ سے یہ اپنے آپ کا کیسا ’اظہار‘ کرتا ہے اور گرد وپیش کے ساتھ کیونکر پیش آتا ہے۔

’ایمان‘ اللہ سے ملنے کی ایک تیاری ہے جس میں آدمی کو سماج کے عین بیچ سے گزارا جانا ہوتا ہے ورنہ محض ’مراسم بندگی‘ کی اگر بات ہو تو یہ امتحان ’عالم ارواح‘ میں یا کسی اور جہان میں بھی ہو جاتا! کئی کروڑ اسی جیسے انسانوں سے بس اس دُنیا میں لاکر ہی اس سے یہ امتحان لیا جانا یہی معنی رکھتا ہے کہ اس امتحان کے نقشے کی ابتداء’بندے اور اللہ ‘ کے اس تعلق میں کئی اور جہتیں بھی مختلف حیثیتوں میں کارفرما ہوں اور یہ کہ ان سب جہتوں سے ہی اور ان سب حیثیتوں میں ہی انسان برابر حُسن اور اجالا کرتا جائے۔

إِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی ٱلۡأَرۡضِ زِينَةََ لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ أَيُّہُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلاََ وَإِنَّا لَجَ۔ٰعِلُونَ مَا عَلَيۡہَا صَعِيدََا جُرُزًا
”روئے زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے زمین کی رونق بنایا ہے اس لئے کہ اس کو ہم لوگوں کی آزمائش بنا ڈالیں کہ کون سب سے بڑھ کر عمل میں حسن پیدا کر پاتا ہے۔ پھر آخرکار اس سب کو ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں“(الکہف: ۷، ۸)۔

ماحول میں ’انسان‘ کی روشنی ہونا بھی پس اس امتحان کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس روشنی کو پھوٹنا تو ’درون‘ سے ہے مگر ’نمودار‘ ہوکر رہنا ہے۔

’ایمان‘ ایک ایسی قندیل ہے جس میں آگ اندر جلتی ہے تو روشنی باہر ہر طرف ہونے لگتی ہے کمشکوٰۃ فیھا مصباح نہ آگ بجھے اور نہ روشنی چھپے۔ یکاد زیتھا یضی¸ءولولم تمسسہ نار انسان کی فطرت میں اللہ نے دراصل ایک جوہر رکھ چھوڑا ہے جس کو علم نبوت کے لمس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ وہ روشنی کرتا ہے کہ آسمان تک جائے اور زمین تو اس سے خوب ہی روشن ہو۔ شرط یہ ہے کہ نہ یہ انسانی جوہر کسی وقت مسخ ہو اور نہ نبوت سے لیا جانے والا علم شوائب زدہ۔ یہدی اﷲ لِنورہ من یَشاءواﷲ بکل شیء علیم

وسلام۔۔۔
 
Top