ایمان باللہ اور مسلمان، یہودی، نصاری، صابی ۔۔۔ ؟!

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُون
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُواْ مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون[/ARABIC]
اردو ترجمہ : مولانا محمد جوناگڑھی
مسلمان ہوں ، یہودی ہوں ، نصاری ہوں یا صابی ہوں ، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔
اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے ، اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔
( البقرة:2 - آيت:62-63 )

** درج بالا آیات کا منظوم ترجمہ **
شاعر : نامعلوم
بحوالہ : سورہ بقرہ / بلاگ "حوا کی بیٹی"

مسلماں ہو ، يہودی ہو ، وہ نصرانی يا صابی ہو
يقيں رکھے خدا اور آخرت پر اپنے دل سے جو

عمل اچھے جو کرتا ہوپئے خوشنودی رحمان
مانے وہ کُتب ساری کہ خاتم جن کا ہے قرآن

خدا کے پاس بے شک اجر ہےايسے ہی لوگوں کا
نہيں ہے خوف کچھ ان کو، نہ رنج و غم کا ہے سايا

ليا ہم نے تم سے عہد، تم توريت مانو گے
مگر احکام رب کے ماننے پر تم نا راضی تھے

معلق کر ديا اوپر تمہارے طور کو ہم نے
کہ تھامو خوب مضبوطی سے سب احکام تم رب کے

تمہيں توريت دی ہم نے، اسے تم ياد رکھو اب
عمل اس پر کرو، بن جاؤ دل سے متقی تم سب

فلاح دين و دنيا کا يہی ہے راستہ سُن لو
چلے مخلوق اس پر، ہے يہی مطلوب خالق کو



بعض جدید مفسرین کو اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے۔
اور اِس آیت ( البقرة:2 - آيت:62 ) سے انہوں نے ایک گمراہ فلسفے "وحدت ادیان" کو کشید کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔
یعنی یہ کہ ۔۔۔ رسالتِ محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے ، ا س کی نجات ہو جائے گی۔
یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت (بقرہ:62) سے قبل والی آیات میں یہود کی بد عملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحقِ عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھا کہ اُن یہود میں جو لوگ صحیح تھے ، کتاب الٰہی کے پیرو کار تھے اور اپنے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے،ان کے ساتھ اللہ تعلیٰ نے کیا معاملہ فرمایا؟
یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟
اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہود ہی نہیں ، نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صا لح کرتے رہے ، وہ سب نجات اخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے
ایمان باللہ و
ایمان بالیوم الآ خر
اور عمل صالح

کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔
نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا ، وہاں بے لاگ فیصلہ ہوگا۔
چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہم۔
اس کی تائید بعض مرسل آثار سے ہوتی ہے۔
مثلاً مجاہد حضرت سلمان فارسی سے نقل کرتے ہیں ، جس میں کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے ان اہلِ دین کے بارے میں پوچھا جو میرے ساتھی تھے ، عبادت گزار اور نمازی تھے (یعنی رسالت محمدیہ سے قبل وہ اپنے دین کے پابند تھے) تو اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی :
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ ....[/ARABIC]

قرآن کریم کی دوسری آیات کچھ یوں ہیں:

[ARABIC]إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ[/ARABIC]
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔
( آل عمران:3 - آيت:19 )

[ARABIC]وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِين[/ARABIC]
جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا ، وہ ہرگز قبول نہیں ہوگا۔
( آل عمران:3 - آيت:85 )

ان دو آیات میں اور سورہ البقرہ کی آیت:62 میں تطبیق یوں ہوگی کہ :
ہر نبی کا تابعدار اور اس نبی کو ماننے والا ، ایمان والا اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا ہے لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس کا انکار کرے تو کافر ہو جائے گا۔

کسی شخص کا کوئی عمل ، کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعتِ محمدیہ کے مطابق نہ ہو ۔۔۔۔ مگر یہ اُس وقت ہے جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اُس زمانے میں تھے ، ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔

اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے وضاحت فرما دی ہے کہ اب میری رسالت پر ایمان لائے بغیر کسی شخص کی نجات نہیں ہو سکتی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے فرمایا :
[ARABIC]والذي نفس محمد بيده لا يسمع بي احد من هذه الامة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي ارسلت به الا كان من اصحاب النار[/ARABIC]
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے ، وہ یہودی ہو یا عیسائی ، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔
[ARABIC]صحيح مسلم , كتاب الايمان , باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم الى جميع الناس ونسخ الملل بملته , حديث:403[/ARABIC]

اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت ادیان کی گمراہی ، جہاں دیگر آیاتِ قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے ، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔
اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیثِ صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

بحوالہ :
تفسیر ابن کثیر + تفسیر احسن البیان
 
Top