ایسا کہاں سے لائوں؟

راجہ صاحب

محفلین
عيد الفطرکا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے نئے کپڑے خريدنے ميں مصروف تھا، جب بڑوں ميں عيد کيلئےيہ گہما گہمي تھي تو بچے بھي اس خوشي کے موقع سے غافل رہتے ، چناچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدين سے عيد کے لئے کپڑوں کي خواہش ظاہر کي اور تمام بچوں کي خواہش تکميل بھي کر دي گئي، اب يھ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانےلگے، بچے تو پھر بچے ہي ہوتے ہيں، چاہے وہ کسي غريب کے ہو يا امير کے ، عام شخص کے بچے ہو يا امير المومنين کے، چناچہ عام بچوں کے نئے نئے کپڑوں کو ديکھ کر امير المومنين رات کو گھر تشريف لائے تو اہليہ نے بچوں کي خواہش کا ان کے سامنے اظہار کرديا، بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہيں۔
امير المومنين خاموش رہے کوئي جواب نہ ملا اور آرام کي غرض سے ليٹ گئے ليکن نيند کہاں آتي يہ نئي پريشاني جو سر پر آپڑي تھي، وہ سوچنے لگے کہ گھر ميں خريدنے کيلئے کچھ بھي نہيں ہے دوسري طرف بچوں کي خواہش تھي اس کو رد کرنا بھي سخت ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن ميں بات آئي کہ بيت المال سے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي لے ليتا ہوں، جس سے بچوں کي خواہش کي تکميل ہوجائے گي اور اگلےمہينے کے راشن کيلئے اللہ تعالي کوئي نہ کوئي انتظام فرماديں گے، يہ سوچ کر ان کو کچھ اطمينان ھوا۔
اگلے دن صبح ہي اميرالمومنين بيت المال کے ذمہ دار کے پاس تشريف لے گئے اور ان سے حاجت بيان کھ مجھے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي دے دو، بيت المال کے ذمھ دار نے جواب ديا امير المومنين اس بات کي کيا ضمانت ہے کہ آپ ايک مہينے تک زندہ رہيں گے اور پورے مہينے اپني ذمہ دارياں سرانجام دے ديں گے، امير المومنين اس بات کے سامنے لاجواب ہوگئے اور خالي ہاتھ ہي واپس لوٹ آئے اور اہليہ سے سارا قصہ بيان کيا اور کہا کہ ہمارے بچے اس عيد ميں پرانے کپڑے ہي پہن سکيں گے۔
چناچہ دنيا نے ديکھا کہ عيد کے دن تمام لوگوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہيں، ليکن امير المو منين کے بچے پرانے کپڑوں ميں نماز کيلئے عيدگاہ کي طرف آرہے ہيں، دنيا اس عدل و انصاف اور تقوي و پرہيزگاري کے علم بردار امير المو منين کو حضرت عمر بن عبدلعزيز رحمتہ اللہ کے نام سے جانتي ہے۔
 
Top