ایران کی فتنہ ساماں حشر بداماں شاعرہ قرۃ العین طاہرہ کی سرگزشت

دشمن ایمان
تحریر و تحقیق ڈاکٹر ساجد امجد

قسط نمبر 1
تاریخ گواہ ہے کہ دین و مذہب میں فلسفہ و منطق کی موشگافیوں نے ہمیشہ گمراہیوں کو جنم دیا اور اکثر جھوٹے مدعیان نبوت نے شریعت میں ایسی موشگافیوں کا سہارا لے کر خلق کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کئے ۔انیسویں صدی کا ایران بھی ایک ایسے ہی فتنے کی لپیٹ میں آگیا تھا جب ایک شخص نے ذاتی نمود و نمائش کی خواہش سے مغلوب ہو کر دعویٰ مہدیت کر ڈالا اور بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ کچھ مشکوک اذہان پہلے ہی میدان اس کے حق میں ہموار کر چکے تھے بلکہ ایک ذہین و فطین عالم فاضل حسین و جمیل شاعرہ بھی جیسے اسی دعوے کی منتظر بیٹھی تھی ۔ اس کہ طبعی آزاد روی معاشرے میں خواتین کے لئے مقرر کردہ حدود و قیود کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی ۔اس کا شاعرانہ مزاج خواتین کے لئے بھی فکر و عمل کی مکمل آذادی کا طلبگار تھا ۔دونوں کے نظریاتی اتحاد نے بالا آخر ایک نئی تحریک کو جنم دیا جس کی یادگار آج بھی بہائی مذہب کی شکل میں موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے مذہبی نظریات کی کج روی کے باوجود تاریخ نے آج تک قزوین کی اس شاعرہ جیسی باکمال و با جمال عورت دوسری کوئی پیدا نہیں کی ۔ اس کی فطانت و ذہانت نے عقائد کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ جس نے ایک بار اس کی جھلک دیکھ لی وہ عمر بھی اس کا دم بھرتا رہا۔ اس کے اشعار فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے ۔ بلند خیالی اور شوکت الفاظ میں اس نے اپنے معاصرین کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس کی زندگی کے حالات روح کی ایک عجیب پیچ و تابی اور سوز و گداز کا مرقع ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قزوین (ایران) کے بازاروں میں اس دن معمول سے زیادہ چہل پہل تھی ۔خریدار اور تاجروں اور تماشائیوں کی بھیڑ میں مقامی لوگ بھی شانہ بشانہ اجنبی چہرے نظر آ رہے تھے ۔شہر کی بڑی مسجد کے اردگرد عوام کا جم غفیر تھا۔ ہر شخص کے چہرے پر غصہ اور آنکھوں میں جوشیلی چمک نظر آ رہی تھی ۔راستے کسی کی آمد کا انتظار کر رہے تھے ۔اس لئے نہیں کہ انہیں اشتیاق قدم بوسی تھا بلکہ بلکہ اس لئے کہ ان قدموں کی آمد کے بعد تاریخ ایران میں ایک نئے باب کا اضافہ ہونے والا تھا ۔یہ باب ایران کے ماتھے کا جھومر بھی ہو سکتا تھا اور کلنک کا ٹیکہ بھی ۔یہ فیصلہ عوام نہیں کر سکتے تھے ،اس کے لئے مجتہد العصر کی رائے کی ضرورت تھی اور آنے والے قدم اسی مجتہد کی طرف رواں تھے۔شہ نشینوں پر پڑے ہوئے پردے رک رک کر جنبش کر رہے تھے ۔آنکھوں کی پتلیاں گردش میں تھیں ۔باہر شور مچتا تھا تو پردوں کے پیچھے سانسیں تھم جاتی تھیں کہ شاید وہ آ گئے۔آنے والوں سےسب باخبر تھے ۔یہ شیخ احسائی تھے جو اپنے وطن احسائی سے نکل کر کربلا و نجف میں اپنی تعلیمات پھیلا رہے تھے،شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ ان کے ارد گرد جمع تھا۔
 
قسط نمبر 2
ان شاگردوں میں کاظم رشتی ان کا خلیفہ و جانشین بننے کا اہل تھا۔شیخ احسائی کی تعلیمات اتنی انوکھی اور روائیتی عقائد سے اتنی مختلف تھی کہ ان میں عصر حاضر کے لئے کشش بھی تھی اور متنارزعہ بھی تھیں۔ان تعلیمات نے دنیائے اسلام خاص طور پر شیعی مسلک کے ماننے والوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ یہ معلوم ہوا تھا کہ جیسے کسی بڑے فتنے کی آمد آمد ہو۔ اس نے کسی نئے دین کی داغ بیل تو نہیں ڈالی تھی لیکن موجودہ دین میں دراڑیں ڈالنے کی جسارت ضرور کر رہا تھا۔مثلاّّ شعیان میں ایک ہزار سال سے یہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ امام غائب وقت مقررہ پر ظہور فرمائیں گے۔شیخ احسانی کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح ظہور نہیں کریں گے جیسے کوئی چھپا ہوا شخص اچانک سامنے آ جاتا ہےبلکہ وہ ماں کے بطن سے پیدا ہوں گے اور یہ بشارت بھی دے رہا تھا کہ امام موجود بہت جلد ظاہر ہونے والے ہیں۔اسی طرح اس نے روح ،قیامت، جنت، دوزخ ،معراج وغیرہ پر بھی بالکل نئے خیالات ظاہر کئےتھے۔ اس کی یہ تعلیمات پھیل رہی تھیں اور شہرت حاصل کر رہی تھیں ۔یہ کوئی سیاسی فتنہ نہیں تھا کہ حکومتیں اس کا سدباب کرتیں، یہ کام علماء کا تھا اس لئے شاہ ایران نے اسے طہران آنے کی دعوت دی تھی تا کہ وہ علماء وقت سے مناظرہ کرے اور اپنی حقانیت کو تسلیم کرائے ورنہ جھوٹا قرار پائے گا۔کوئی ایران کے سفر کو نکلے ،خصوصاّّ کوئی عالم اور وہ قزوین نہ آئے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ قزوین ایران کا ایک خوشحال صوبہ تھا یہاں کے سپید و سیا ہ میں شریعت کا عمل دخل تھا اور عملاء کی مرضی و منشاء شامل ہوتی تھی ۔یہ پورا علاقہ علماء کے زیر نگیں تھا ۔یہاں سو سے زیادہ علماء فروکش تھے جن کا عوام اور حکومت پر بڑا گہرا اژر تھا۔قاچاری عہد کا یہ ایران یوں بھی مذہبی روایات کی پاسداری پر عمل پیرا تھا اور قزوین علماء کا گڑھ تھا ۔قاچاریوں سے قبل ایران کے شاہان صفویہ نے اپنی تمام تر توجہ مذہب کی ترویج و اشاعت پر مزکور رکھیتھی۔ یہ سوچے بغیر کہ اس طرح فارسی ادب و شعر کا گلشن تباہ ہو جائے گا اور نئے خیالات کی آمد رک جائے گی۔شاہان صفویہ اپنے سیاسی مصالح کی بناء پر سلطنت عثمانیہ سے سخت برگشتہ تھے ۔سلطنت عثمانیہ سنی مذہب پر کاربند تھی لہذا حکومت وقت عنان حکومت سنبھالتے ہی اس حکمت عملی پر کاربند ہو گئی کہ شیعہ مذہب کے علاوہ ہر مذہب کی بیج کنی کی جائے ۔اس مقصد کو حاصل کرنےکی کوشش نے علماء کی اہمیت کو بڑھا دیا ۔یہ ہی وجہ تھی کہ صفوی دور دو سو بیس برس میں ایک بھی قابل ذکر شاعر پیدا کرنے سے قاصر رہا۔علماء کی تنگ نظریوں نے کسی بھی نئی تحریک کے لئے راہ ہموار کر دی تھی چناچہ قاچاریوں کے عہد حکومت میں دور استبداد کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگیں تھیں۔ شیخ احسائی جیسے لوگ انہی پابندیوں کا ردعمل تھے جو کہ لوگوں کو امام مہدی کی آمد کی نوید سنا کر نجات کا راستہ دکھا رہے تھے۔اس معاشرے میں عورتوں کی حالت خصوصیت سے ناگفتہ تھی ۔ان پر تعلیم کے دروازے بند تھے اور پردے کی حد سے بڑھی ہوئی پابندی نے انہیں قیدی بنا کر رکھ دیا تھا۔آذادی کی اسی لہر نے شعر و ادب میں بھی تبدیلی پیدا کی ۔ دور صفویہ میں فارسی انتہائی پستی میں جا پڑی تھی لیکن قاچاریہ دور کے آتے ہی جہاں فرسودہ طریقوں سے بیزاری عام ہونے لگی وہیں شاعری میں لفظی،صناعی اور دور ازکار شہیبات اور خیالی مضامین سے نفرت پیدا ہوئی،جذبات دلی اور واردات قلبی کو اہمیت دی جانے لگی۔سیاسی ماحول اور ملکی اثرات کو نمایاں جگہ ملی۔ سادہ مضامین سادہ زبان میں ادا کئے جانے لگے۔صوبہ قزوین میں برغانی خاندان علم و فضل کی بدولت بڑی شہرت رکھتا تھا ۔اس خاندان کے تین فرزند ملا صالح ملاتقی او ر ملا علی مجتہدتھے اور علمی و دینی معاملات میں سند کا درجہ رکھتے تھے ۔یہ انیسویں صدی کے نصف اوائل کا ذکر ہے ۔شیخ احسانی ملا تقی سے ملنے قزوین آ رہے تھے ۔خلقت جنہیں دیکھنے کے لئے جمع تھی۔ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ مناظرہ مسجد میں ہو گا لیکن کسی ممکنہ فساد سے بچنے کے لئے ملا صالح کی حویلی میں اہتمام ملاقات کیا گیا تھا۔ملا صالح کی حویلی کے وسیع سبزہزار پر علماء صف آراء تھے ۔ان میں ملا صالح اور ان کی بھائی ملا تقی اور ملا علی مجتہد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔حقے کا دور ابھی ابھی اختتام کو پہنچا تھا ،اب الائچیاں تقسیم ہو رہی تھیں ۔کچھ دیر پہلے خشک میوہ اور شربت سے مہمانوں کی تواضع کی گئی تھی۔شیخ احسائی اپنے شاگرد کاظم رشتی کے ساتھ مسند افروز تھے ،تواضع کے بعد سب کی نگاہیں شیخ احسائی کی طرف اُٹھ گئیں ۔مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے عقائد کا اظہار کریں
انہوں نے فورا" تعمیل کی اور اپنی کتابوں کے اقتباسات کے ذریعے اپنا نقطہ نظرواضع کیا ۔علماء نے فورا" پکڑ کی اور شیخ احسائی نے دلائل دینے شروع کئے۔ دوسری طرف سے ملا تقی نے ان کے دلائل کی کاٹ کی، تھوڑی دیر میں محفل ایسی گرم ہو گئی کہ آنچ حویلی کی دیواروں تک پہنچ گئی
 

سروش

محفلین
جہاں تک مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحبب کی ایک اور تحریر بہاء اللہ اور بہائی تحریک کے حوالے سے بھی سرگزشت میں شائع ہوئی تھی ، یا وہ ہے آپ کے پاس؟ وہ ایک بہت زبردست تاریخی تحریر ہے ۔ اگر ہو تو لازمی اسکو بھی شامل کریں ۔
 
آخری تدوین:
جہاں تک مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحبب کی ایک اور تحریر بہاء اللہ اور بہائی تحریک کے حوالے سے بھی سرگزشت میں شائع ہوئی تھی ، یا وہ ہے آپ کے پاس؟ وہ ایک بہت زبردست تاریخی تحریر ہے ۔ اگر ہو تو لازمی اسکو بھی شامل کریں ۔
مزکور تحریر میرے پاس نہیں ڈھونڈتا ہوں ملی تو ضرور شریک کروں گا
 
قسط نمبر تین کا انتظار ہے۔
ہمارے پاس طاہرہ کا دیوان بمع اردو ترجمے کے موجود ہے مارتھا روٹ کا مرتب کردہ جس میں طاہرہ کے حالاتِ زندگی بھی ہیں جو ظاہر ہے بابی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے۔ آپ کی پیش کردہ تحریر اس کے برعکس ہے۔
 
قسط نمبر تین کا انتظار ہے۔
ہمارے پاس طاہرہ کا دیوان بمع اردو ترجمے کے موجود ہے مارتھا روٹ کا مرتب کردہ جس میں طاہرہ کے حالاتِ زندگی بھی ہیں جو ظاہر ہے بابی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے۔ آپ کی پیش کردہ تحریر اس کے برعکس ہے۔
لیپ ٹاپ کی خرابی کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکا
انشاءاللہ اس کی اگلی قسط جلد پیش کروں گا
 

نور وجدان

لائبریرین
قسط نمبر تین کا انتظار ہے۔
ہمارے پاس طاہرہ کا دیوان بمع اردو ترجمے کے موجود ہے مارتھا روٹ کا مرتب کردہ جس میں طاہرہ کے حالاتِ زندگی بھی ہیں جو ظاہر ہے بابی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے۔ آپ کی پیش کردہ تحریر اس کے برعکس ہے۔
کچھ محفل میں شئیر کریِ. اک منظوم ترجمہ شدہ کلام ابھی تک دو بام میں گونج رہا ہے اور لفظوں کی خوشبوں گوشوں میں مہک رہی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ محفل میں شئیر کریِ. اک منظوم ترجمہ شدہ کلام ابھی تک دو بام میں گونج رہا ہے اور لفظوں کی خوشبوں گوشوں میں مہک رہی ہے
انتظار ہے کہ ناصر بھائی یہ داستان مکمل کریں تب ہم مارتھا روٹ کا لکھا مضمون ٹائپ کریں گے۔

منظوم ترجمہ پسند کرنے پر شکریہ قبول فرمائیے۔
 
Top