ایران امریکہ تعلقات

الف نظامی

لائبریرین
چند ماہ پہلے ایران کے ایٹمی پروگرام اور حکومت کے خلاف امریکی مہم زوروں پر تھی۔ عالمی رائے عامہ کو منظم کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی تھیں۔ ایٹمی پھیلاؤ کا معاملہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کرنے کے لئے ابتدائی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ایران کو آخری مہلت دی گئی اور پھر اس مہلت میں اضافہ کیا گیا۔ امریکہ کی طرف سے یکطرفہ کارروائی کی دھمکیاں شروع ہوگئیں لیکن ساتھ ہی بعض درپردہ اقدامات بھی ہو رہے تھے، جو کشیدگی کے پرشور ماحول میں نمایاں خبروں کا حصہ نہ بنے۔ ان میں اہم ترین واقعات عراق میں ہوئے۔ وہاں سابق وزیراعظم کرسی چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ امریکی کوششوں اور دباؤ کے بعد بھی وہ اپنے موقف پر قائم تھے کہ اچانک ایران کے سفارتی رابطے متحر ک ہوئے اور سابق وزیراعظم اپنے عہدے سے دستبرداری پر تیار ہو گئے اور موجودہ وزیراعظم کو عمومی اتفاق رائے سے قبول کر لیا گیا۔ وزارت خارجہ اور داخلہ کی وزارتوں پر شدید تنازع تھا لیکن ایرانی کابینہ کے اراکین نے خود عراق جا کر مذاکرات کئے اور ان وزارتوں کے فیصلے بھی ہوگئے۔ بظاہر یہ ایران اور عراق کے رابطے تھے لیکن ان کے نتیجے میں فوائد امریکہ اور اس کے حامیوں کو مل رہے تھے۔ شاید انہی رابطوں کا نتیجہ تھا کہ امریکہ کی طرف سے مشروط طور پر پہلی مرتبہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہونے کی پیشکش سامنے آئی۔ ایسی پیشکشیں کسی تیاری اور گراؤنڈ ورک کے بغیر نہیں کی جاتیں۔ یورپی یونین کی طرف سے ایران کو ایک نیا پیکیج پیش کیا گیا، جس پر ایران کی طرف سے امید افزا ردعمل سامنے آیا۔ ایک وقت تھا، جب امریکہ بار بار دھمکی دے رہا تھا کہ ایران کو زیادہ مہلت نہیں دی جائے گی اور اشارے دیئے جا رہے تھے کہ ایک ماہ کی مہلت کے بعد ایک دو ہفتوں سے زیادہ مزید مہلت کی گنجائش نہیں ہوگی لیکن اب ایک دو سے زیادہ ہفتے گزر چکے ہیں۔ ایران نے یورپی پیکیج کا جواب دینے کے لئے اگست کی تاریخ دی ہے اور امریکہ نے رسمی ناپسندیدگی سے زیادہ کسی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ پھر ایسا ہوا کہ افغانستان اور ایران نے مل کر دہشت گردی کے خلاف تعاون کی باتیں کیں۔ شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں ایرانی صدر احمدی نژاد کی شرکت کو عمومی طور پر امریکہ مخالف اقدام کے طور پر دیکھا گیا اور تبصرے کئے گئے کہ چین اور روس نے ایرانی صدر کو مدعو کرکے امریکہ کو انتباہ کیا ہے لیکن اجلاس کے بعد جو کچھ سامنے آیا، وہ ان تبصروں سے مختلف تھا۔ روس اور چین کی طرف سے ایران کی سابقہ حمایت میں کوئی فرق نہیں آیا لیکن یورپی یونین کی تجاویز کے حوالے سے ایران کے رویئے میں ضرور نرمی آگئی اور اب اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ایران کی طرف سے امید افزا جواب آئے گا اور اگر ایساہے تو پھر شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں احمدی نژاد کی شرکت کو امریکہ مخالف اقدام سمجھنے کی بجائے، ایسا اقدام کیوں نہ تصور کیا جائے، جس میں امریکہ اور ایران کی باہمی کشیدگی کم کرنے کا عمل آگے بڑھایا گیا ہو؟ امریکی میڈیا کا بدلا ہوا رویہ بھی انتہائی قابل غور ہے۔ اب وہاں کھل کر لکھا جا رہا ہے کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے مفادات کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ ”واشنگٹن پوسٹ“ ایران کے ساتھ مذاکراتی حل کی تجویز پیش کرتا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے مفکر، جنہیں موجودہ امریکی انتظامیہ کے ممتاز اراکین اپنا گرو سمجھتے ہیں، انہوں نے ایران امریکہ تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے، یہ تھیوری پیش کی کہ دونوں ملک اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر تصادم کے بجائے تعاون کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ”ایران کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا عالمی کردار بطور ایک قوم کے ادا کرنا چاہتا ہے یا ایک نظریاتی سپاہی کی حیثیت سے؟ اگر وہ ایک قوم ہے تو اسے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اس کے قومی مفادات کا ہم سے کوئی تصادم نہیں اور اگر ایران کی دلچسپی اپنی سکیورٹی اور ملک کی ترقی میں ہے تو یہ امریکی دلچسپی سے متصادم نہیں“۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ ”اس تصور کے پیچھے کوئی حقیقی دلیل نہیں کہ امریکہ ایران کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ ہماری دلچسپی اس میں ہے کہ ایران ایک مستحکم اور خوشحال ملک ہو۔ اگر وہ جنوبی کوریا کے راستے پر چلتا ہے تو یہ ہمارے مفاد میں بھی ہوگا ۔ البتہ اگر ایران خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا“۔ ہنری کسنجر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کہتے ہیں ”ایٹمی پھیلاؤ خود ایران کی سلامتی کے لئے بھی اتنا ہی خطرہ ہے، جتنا کہ امریکہ اور اسرائیل کے لئے۔ عدم پھیلاؤ کی لکیر جہاں بھی کھینچی جائے گی، وہ ان ملکوں کے لئے غیر منصفانہ ہوگی، جن کے پاس ایٹم بم نہیں ہے اور اگر ایران ایٹمی افزودگی نہیں روکتا تو یہ ہر ملک کے لئے خطرہ ہوگا۔ خود ایٹمی پھیلاؤ والے ملکوں کے لئے بھی“۔ امریکی تھنک ٹینکس، میڈیا اور سیاسی مبصرین ایک جیسی لائن دیتے ہوئے اپنی اور عالمی رائے عامہ کو باور کرا رہے ہیں کہ امریکہ ایران کو ایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے اور اگر ایران امریکہ کے ساتھ مل کر عراق کو مستحکم کرنے کے عمل میں تعاون کرے تو وہ شرق اوسط میں ایک بڑی طاقت کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایران کے قومی تصورات اور مفادات کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تاریخی طور پر ایران ایک موثر بلکہ غالب علاقائی طاقت کا کردار ادا کرنے کا خواہش مند رہا ہے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام بھی درحقیقت اسی خواہش کا آئینہ دار ہے۔ مندرجہ بالا تبصروں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکہ نے ایران کو بطور علاقائی طاقت تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اور یہ امید بھی دلا دی ہے کہ جو علاقائی اور عالمی کردار وہ ایٹمی طاقت بن کر حاصل کرنا چاہتاہے، امریکہ اس کے بغیر بھی ایران کا یہ کردار تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو پھر جیسا کہ میں نے کل عرض کیا جلد ہی کسی بڑی اور ڈرامائی خبر کی امید کرنا چاہئے اسی پس منظر میں میرا قیاس ہے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ کا دورہ جنوبی ایشیا اور روس، ایران امریکہ تعلقات میں ہونے والی پیش رفت سے بھی اتنا ہی تعلق رکھتا ہے، جتنا کہ پاک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔http://209.41.165.188/urdu/details.asp?nid=116879 سے لیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top