ایرانی پٹرول کی کھلے عام فروخت پولیس کی ماہانہ 7 کڑور بھتہ وصولی

140037_66325662.jpg


آئی جی سندھ آفس کی خصوصی اجازت سے یومیہ 50سے 70گاڑیوں میں ایرانی تیل کی کراچی اسمگلنگ جاری،کسی پولیس چیک پوسٹ پر ان گاڑیوں کو نہیں روکا جاتا متعلقہ تھانوں کے اہلکارفی گاڑی 5ہزار روپے وصول کرتے ہیں،صنعتی علاقوں میں قائم ڈپمنگ اسٹیشنوں سے الگ وصولی کی جاتی ہے،کاروبار میں 15ڈیلرز ملوث

کراچی(رپورٹ وتصاویر: کاشف ہاشمی )آئی جی سندھ آفس کی مبینہ اجازت پر کراچی پولیس ایرانی پٹرول اور ڈیزل کے15ڈیلروں سے ماہانہ 7کروڑ روپے بھتہ وصول کررہی ہے،ایران سے پٹرول وڈیزل کی کراچی اسمگلنگ زمینی راستے سے مسافروں گاڑیوں،پانی کے ٹینکروں اور مال برادر گاڑیوں کے ذریعے کی جاتی ہے،ایران سے کراچی آنے والے راستوں میں پولیس اور قانون نافذکرنے والے دیگر اداروں کی اہم چیک پوسٹیں قائم ہیں مگر ایک بھی چیک پوسٹ پر ان گاڑیوں کو روکا نہیں جاتا ،کراچی کے صنعتی علاقوں میں ایرانی پٹرول اور ڈیزل کے ڈمپنگ اسٹیشن قائم ہیں،ان ڈمپنگ اسٹیشنوں سے بھی پولیس لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتی ہے،ان ڈمپنگ اسٹیشنوں سے کراچی کے تمام علاقوں میں پولیس کی سرپرستی میں کھلے عام ایرانی ڈیزل اور پٹرول فروخت کیا جارہاہے۔تفصیلات کے مطابق سینٹرل پولیس آفس (سی پی او)کے اہم ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایران سے اسمگل ہونے والے ایرانی پٹرول اورڈیزل کے ڈیلروں کوسی پی او سے خاص اور خفیہ اجازت نامہ حاصل ہے، کراچی پولیس ایرانی پٹرول اورڈیزل کے ڈیلروں سے لاکھوں روپے یومیہ بھتہ وصول کررہی ہے،کراچی کے بڑے ٹرانسپوٹرز ایران سے کراچی آنے والے زمینی راستوں کے ذریعے ایرانی پٹرول اورڈیزل اسمگل کررہے ہیں جو شہر میں کھلے عام سستے داموں فروخت کیاجارہا ہے ،ذرائع نے بتایا کہ سی پی او سے ایرانی پٹرول اورڈیزل کی 50سے70گاڑیاں کراچی لانے کی اجازت دی گئی ہے،اس سے زیادہ گاڑیاں لانے کی اجازت نہیں ہے،ذرائع کے مطابق ایران کے علاقے ’’چابار ‘‘اور ’’بندر عباس روڈ ‘‘کے قریب علاقوں سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل لایا جاتا ہے،ان علاقوں سے کراچی کے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کے ڈیلروں کے نمائندے مسافربسوں کے خفیہ خانو ں،ٹریلروں ،پانی کے ٹینکروں اور دیگر ہیوی گاڑیوں میں رکھ کر کراچی اسمگل کرتے ہیں ،یہ گاڑیاں ایران سے مند بلو وہاں سے تربت اور حب پہنچائی جاتی ہیں ،حب میں پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی تین چیک پوسٹوں پر تعینات پولیس اہلکاروں اورایندھن اسمگل کرنے والوں میں زبانی کوڈ اور ڈی کوڈ کا تبادلہ ہوتا ہے جس کے بعد ایرانی پٹرول یا ڈیزل سے بھری گاڑی، ٹینکر یا ٹریلر کو کراچی میں داخلے کی اجازت دے دی جاتی ہے جہاں سے یہ گاڑیاں ماڑی پورروڈ اور ناردرن بائی پاس روڈ سے شہر کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے ڈمپنگ اسٹیشنوں میں جاتی ہیں ،ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں جب ان سڑکوں پر آتی ہیں تو انکا سامنا ماڑی پور ،شیرشاہ،منگھوپیر،بغدادی،ڈاکس اورجیکسن تھانوں کی پولیس سے پڑتا ہے ،ان گاڑیوں کے ڈرائیور یہاں بھی پولیس اہلکاروں کے ساتھ خفیہ کوڈ کا تبادلہ کرتے ہیں ، یہاں ایک پرچی پولیس اہلکاروں کو پیش کی جاتی ہے اور پولیس اہلکار ا س پرچی پر لکھے نمبر اپنے ریکارڈ میں چیک کرکے اطمینان کے بعد گاڑی کو آگے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں ، ذرائع کے مطابق تھانے کا موبائل افسر ایس ایچ اوز سے رابطہ کرکے آگاہ کر تا ہے کہ مذکورہ گاڑی اس نے اپنے علاقے سے کلیئر کروادی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار ایرانی پٹرول اور ڈیزل لانے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے صرف خرچہ پانی لیتے ہیں،انکی مجال نہیں کہ وہ ان گاڑیوں کو روک کر انہیں پریشان کریں یا انکا وقت ضائع کریں ،اس لئے کہ اے ایس آئی جمعہ خان،اے ایس آئی عابد،اہلکار شاہ جی،تنویر،ندیم،علی ،امیر بخش،اور فرقان پر مشتمل بیٹرز کی ٹیم مبینہ طور پر ایس ایس پی،ایس پی،ڈی ایس پی،ایس ایچ او کو ہفتہ وار لاکھوں روپے بھتہ پہنچاتی ہے، اسکے علاوہ بیٹرز کی یہی ٹیم سی پی او آفس میں بھی بعض ذمہ دار افسران کو ہفتہ وار لاکھوں روپے بھتہ پہنچاتی ہے،ذرائع کے مطابق ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی 50 گاڑیاں کراچی آتی ہیں ، فی گاڑی پولیس 5ہزار روپے مبینہ بھتہ وصول کرتی ہے ،ایک ہفتے میں 350 گاڑیاں کراچی آتی ہیں،ذرائع کے مطابق پولیس ایک ہفتے میں مبینہ طور پر ایک کروڑ75لاکھ روپے اور ماہانہ 7کروڑ روپے بھتہ وصول کررہی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی ڈیزل اور پٹرول کے ڈیلروں نے سائٹ ایریا،ماڑی پور،ہاکس بے روڈ،کیماڑی،کورنگی صنعتی ایریا،نیوکراچی صنعتی ایریا،گڈاپ،ملیر سعودآباد، اور شرافی گوٹھ کے علاقوں میں گوداموں میں ڈمپنگ اسٹشن قائم کررکھے ہیں ،علاقہ پولیس ان ڈمپنگ اسٹیشنوں سے بھی علیحدہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتی ہے اور بھتے کے عوض ان کے ڈمپنگ اسٹیشنوں کی نگرانی بھی کرتی ہے۔
بہ شکریہ روزنامہ دنیا
 
ویسے ایرانی پٹرول ٹو اسٹروک گاڑیوں کے لیے بہترین ہے۔ کیوں کہ اس میں آئل ملا ہوا ہوتا ہے۔
لیکن اسے لوگ سڑکوں پر رکھ کر بیچتے ہیں۔ اس سے کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔
 
Top