ایرانی فون کمپنی کی اشتہاری مہم میں حضرت عمر کی شان میں گستاخی

اور سنیوں نے جو گل کھلایا ہوا ہے اس کا کیا ہوگا جناب پارہ چنار میں شیعوں کی بستی کی بستی قتل عام کی نظر ہو جاتی ہیں نومبر 2011ء سے لیکر 18 اپریل 2012ء تک پورے پاکستان میں محتاط اندازے کے مطابق 200 شیعہ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد بھی آپ کہتے ہیں دل بڑا کریں ۔کیا آپ اس بات کی گارنٹی دیں گے کہ بل پاس ہو جانے کے بعد شیعوں پر حملہ نہیں ہوگا انھیں ناجائز موت کے گھاٹ نہیں اتارا جائے گا ۔یہ کون سا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے ۔میٹھی میٹھی سنتیں والو!!

جتنا آپ بھڑک رہے ہیں ایسی کیفیات معاملے کو خراب کرتی ہیں ۔ طعنہ دے کر بات بنائی نہیں صرف بگاڑی جاسکتی ہے۔ برائے مہربانی اس جذباتی انداز ا پر قابو پائیے کہ معاملہ بہت نازک و حساس ہے ۔ اور یہ بات ذہن میں رکھیے کہ شدت پسند کسی ایک گروپ میں نہیں بلکہ دونوں گرہوں میں موجود ہیں جن سے نبرد آزما ہونا ہر دو گروپ کے ذمہ دار افراد کا کام ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
مجھے اگر کوئی دستاویزی ثبوت مہیا کر سکیں (کہ توہینِ رسالت ﷺ کے قانون کے بعد لوگوں کی جانیں بچی ہیں) تو میرے پاس ایک دلیل آ جائے جو میں نام نہاد این جی اوز کے منہ پر مار سکوں کہ نہیں تم بکواس کرتے ہو مسلمان اپنے نبی ﷺ کی توہین کے نام پر جھوٹا الزام نہیں لگاتے۔
شاکر بھائی، اگر آپ بھی مجھے کوئی دستاویزی ثبوت مہیا کرسکیں کہ ہمارے ملک میں موجود تمام مجموعہ ہائے قوانین کے تشکیل پانے کے بعد جرم ہونا بند ہوگئے ہیں تو میرے پاس بھی ایک دلیل آجائے گی جو میں مذہبی افراد کے سامنے رکھ کر کہہ سکوں گا کہ تم بلاوجہ شور مچاتے اور امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرتے ہو، یہ دیکھو باقی قوانین کی وجہ سے تو تمام جرائم کا سدِباب ہوگیا مگر تمہارا محبوب ترین قانون اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا!
 

سید ذیشان

محفلین
آپ کی اس تحریر کے بیادی اجزاءدوو ہی ہیں ناکافی معلومات اور تجاہل عارفانہ۔

اگر تو آپ کا مقصد مثبت گفتگو ہے تو دلیل سے بات کیجئے ورنہ تو اپنے جاہلانہ کمنٹس اپنے پاس رکھیے۔

توہین رسالت کے قانون سمیت ہر قانون کا صحیح و غلط استعمال ہمیشہ ہوتا آیا ہے چوری چکاری سے لے کر زنا و قتل کے الزامات تک ہمیشہ صحیح و غلط عائد ہوتے چلے آءے ہیں ۔ایک گاوں کے پٹوار و زمین دار سے لے کر شہر کی بڑٰ بڑٰ سیاسی و لسانی تنظیمیں قوانین کا صحیح و غلط استعمال کرتی ہیں ، لیکن محض یہ وجہ قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لیے کافی نہیں۔توہین رسالت کے قانون کو ایک مخصوص پروپیگنڈے کے تحت بدنام کیا گیا ہے ورنہ آج تک کسی شخص نے اس قانون کے تحت سزا نہیں کاٹی ۔ پھر اگر تبرا ء محض وہی ہے جو آپ بیان فرما رہے ہیں تو ڈر کیسا ؟

توہین رسالت کا قانون ایک ڈکٹیٹر کی پیداوار ہے- ابھی پچھلے چند ایک کیسز کا ہی مطالعہ کیجئے کہ ان میں اس قانون کا استعمال کس طرح سے زمین ہتھیانے کے لئے کیا گیا۔ اور ایسے کتنے ملزمان کو جیل میں قتل کیا گیا ہے۔
آپ بنائیں قانون لیکن قوانین یک طرفہ نہیں ہوتے ہیں اگر کوئی خلفہ ثلاثہ کے خلاف نازیبہ زبان استعمال کرے تو اس کو جیل میں ڈالا جائے لیکن ساتھ میں جو لوگ حضرت علی کیساتھ جنگ کرنے والوں کی تعریفیں کریں ان پر اس قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ جب آپ صحابہ کی توہین کی بات کرتے ہیں تو ایک بڑے صحابی اور خلیفہ کیساتھ جنگ کرنے سے بڑی تو کوئی توہین نہیں ہو سکتی نا؟ اور ان سے بڑے دشمن بھی کوئی نہیں ہو سکتے؟

اہل تسنن و اہل تسیع کے درمیان چنگاری جو شعلہ بنی وہ یہی تبرا ء کا معاملہ تھا اہل سنت کی اولین ڈیمانڈ اس تبراء پر پابندی کے لیے قانون سازی کا مطالبہ تھا جو کبھی پورا نہ کیا گیا۔ بہر کیف اب حاالات جس نہج پر پہچ چکے ہیں جو چنگاریاں اب آتش فشان کا روپ دھار چکی ہییں ان کو قابو کرنے کے لیے سمندر چاہیے اور اس سلسلے میں ہر قطرہ اہم ہے۔ کہیں نہ کہیں سے تو آغاز کرنا ہی پڑے گا ورنہ طاقت کا استعمال تو بہت ہو گیا اور حاصل کچھ نہ ہوا۔

اب ایسا کیا ہوا ہے جو چنگاری لاوا بن گئی ہے؟ سنی شیعہ تو اس علاقے میں صدیوں سے آباد ہیں، اب کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ہے جو آپ جیسے لوگ بدک گئے ہیں؟


یقنا اہل سنت کبھی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرے اور ایک مخصوص گرو ہ ہے جو ایسے کام کرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ اہل تشیع میرے خیال میں کافی عقل مند ہیں اور دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے بس ایک گروہ ان میں بھی ہے جو اہل تسنن کو مارنا کار ثواب گردانتا ہے ، کمیت بھلے مختلف ہو، جس میں دیگر عوامل کا بھی دخل ہے تاہم لیکن کیفیات دونوں جانب یکساں ہی ہیں۔ اختلافات دونوں گروہوں میں موجود ہیں اور بڑی بنیادی نوعیت کے ہیں پھر اختلاف ہونا باعث وبال نہیں بات اس وقت خراب ہوجاتی ہے جب معاملہ دلائل کے بجائے گالی (یعنی تبرا) سے شروع کیاجائے اور بعد ازاں بعدبات ہاتھ سے نکل کر بندوقوں تک پہچ جاتی ہے۔ بھلے آپ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرے لگاتے رہیے لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

آپ جیسے شدت پسند گالی اور بریکٹ میں تبرا لکھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ شیعہ سب کے سب غلیظ لوگ ہیں جن میں تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ چونکہ میں نے تبرا کو دین کا حصہ کہا اب آپ کہہ سکیں گے کہ یہ دیکھو کیسا دین ہے انکا جس میں گالی دینا دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ جیسے manipulative ذہنیت کے لوگوں کو میں خوب سمجھتا ہوں۔ اور چنگاری کو لاوا آپ جیسے چھوٹے ذہن کے لوگ بنا رہے ہیں، جو کہ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفادار بن رہے ہیں۔ دکان تو مولوی کی چمکتی ہے، اور آپ جیسے لوگوں مال مویشی کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔

اس فورم پر محدود، محتاط، اور غیر منافرانہ انداز میں یہی باتیں کی جاسکتی ہیں اور بہتر یہی ہے کہ جس کی جو خطا ہے وہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے بہتری کی طرف آئے ۔
ذات کے کوہ ندا کی طرف۔

آپ کریں منافرانہ باتیں، مدیر حضرات آپ کو زبردست کی ریٹنگ ویسے ہی عنایت کر رہے ہیں، آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی۔
 

دوست

محفلین
شاکر بھائی، اگر آپ بھی مجھے کوئی دستاویزی ثبوت مہیا کرسکیں کہ ہمارے ملک میں موجود تمام مجموعہ ہائے قوانین کے تشکیل پانے کے بعد جرم ہونا بند ہوگئے ہیں تو میرے پاس بھی ایک دلیل آجائے گی جو میں مذہبی افراد کے سامنے رکھ کر کہہ سکوں گا کہ تم بلاوجہ شور مچاتے اور امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرتے ہو، یہ دیکھو باقی قوانین کی وجہ سے تو تمام جرائم کا سدِباب ہوگیا مگر تمہارا محبوب ترین قانون اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا!
سوال در سوال، بحث برائے بحث۔ بات کو پسِ پُشت ڈالنے اور کلیپ لینے کی بڑی پرانی تکنیک ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
سوال در سوال، بحث برائے بحث۔ بات کو پسِ پُشت ڈالنے اور کلیپ لینے کی بڑی پرانی تکنیک ہے۔
میرا مقصد نہ تو بحث کرنا ہے اور نہ ہی داد وصول کرنا۔ آپ نے ایک خاص قانون سے متعلق بات کی ہے تو ظاہر ہے کسی بھی شخص کے ذہن میں دیگر قوانین سے متعلق بھی تو وہ بات آسکتی ہے۔ یہ الگ بات کہ آپ 99ء99 فیصد کو چھوڑ کر محض 01ء0 فیصد کو موضوعِ بحث بنانا چاہ رہے ہیں۔
 

دوست

محفلین
داد تو آپ نے وصول کر لی اور بحث برائے بحث بھی کر رہے ہیں۔ جب دھاگے کا موضوع ہی توہین ہے تو پھر اسی پر بات ہو گی اور کیا یہاں سوتر منڈی کا بھاؤ پوچھا جائے گا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
داد تو آپ نے وصول کر لی اور بحث برائے بحث بھی کر رہے ہیں۔ جب دھاگے کا موضوع ہی توہین ہے تو پھر اسی پر بات ہو گی اور کیا یہاں سوتر منڈی کا بھاؤ پوچھا جائے گا۔
ریٹنگ سے مراد اگر داد ہے تو وہ آپ کے مراسلے کو بھی ملی تھی، اس میں پریشان ہونے والی تو کوئی بات نہیں کہ نہ تو آپ نے کسی کو ریٹنگ دینے پر مجبور کیا اور نہ ہی میں نے جا کر کسی کو اس سلسلے میں درخواست کی۔ دھاگے کا موضوع توہین کا وہ حوالہ تھا ہی نہیں جسے آپ کھینچ کھانچ کر درمیان میں لے آئے۔ اگلی بات یہ ہے کہ آپ نے ایک قانون کو موضوعِ بحث بنایا تھا تو ایسی صورت میں یقیناً دوسرے قوانین بھی زیرِ بحث آئیں گے۔ اب رہ گئی بحث برائے بحث والی بات تو الٹا لٹک کے سیدھا صرف شہرِ آسیب میں ہی دکھائی دیتا ہے، اردو محفل میں نہیں۔ والسلام
 
بحث اپنے موضوع سے ہٹ کر کہیں اور جارہی ہے ، جس سے احتراز بہرحال ضروری ہے۔

ابنِ خلدون کی مشہور تصنیف مقدمہ تاریخ ابن خلدون سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔

’’جنگِ جمل و صفین کے مقتولین اور حضرت علیؓ

حضرت علیؓ سے جنگِ جمل و صفین کے مقتولوں کی نسبت دریافت کیا گیا۔ آپ ان کے حق میں کیا کہتے ہیں۔ آپ نے جواب دیا بخدا کہ ان لڑائیوں میں جو کوئی قتل ہوا بحالیکہ اس کا دل پاک تھا وہ ضرور جنت میں داخل ہوا۔ آپ کے قول سے کسی فریق کی تخصیص نہیں ہوتی۔ دونوں فریق شامل ہیں۔ چنانچہ طبری وغیرہ نے اس کو نقل کیا ہے۔ بہر حال فریقین میں سے کسی کے عادل ہونے میں شک اور شان میں طعن توہین نہ کرنا چاہیے۔ وہ کبار صحابہؓ تھے اور ان کے اقوال و افعال شریعت میں سند ہیں۔ اور ان کا عادل ہونا اہلِ سنت کے بزدیک مسلم ہے۔‘‘


مقدمہ تاریخِ ابنِ خلدون جولائی ۲۰۰۴۔ ناشر الفیصل ناشران وتاجرانِ کتب، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
Sahih Bukhari Volume 1, Book 8, Number 438 :
Narrated by 'Ikrima
Ibn 'Abbas said to me and to his son 'Ali, "Go to Abu Sa'id and listen to what he narrates." So we went and found him in a garden looking after it. He picked up his Rida', wore it and sat down and started narrating till the topic of the construction of the mosque reached. He said, "We were carrying one adobe at a time while 'Ammar was carrying two. The Prophet saw him and started removing the dust from his body and said, "May Allah be Merciful to 'Ammar. He will be inviting them (i.e. his murderers, the rebellious group) to Paradise and they will invite him to Hell-fire." 'Ammar said, "I seek refuge with Allah from affliction."

حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد العزيز بن مختار، قال حدثنا خالد الحذاء، عن عكرمة، قال لي ابن عباس ولابنه علي انطلقا إلى أبي سعيد فاسمعا من حديثه‏.‏ فانطلقنا فإذا هو في حائط يصلحه، فأخذ رداءه فاحتبى، ثم أنشأ يحدثنا حتى أتى ذكر بناء المسجد فقال كنا نحمل لبنة لبنة، وعمار لبنتين لبنتين، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم فينفض التراب عنه ويقول ‏"‏ ويح عمار تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار ‏"‏‏.‏ قال يقول عمار أعوذ بالله من الفتن‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے ، انھوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو ۔ ہم گئے ۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے ۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے ۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے ۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا ، افسوس ! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی ۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔
 

نایاب

لائبریرین
اور یوں شدت پسند اپنے ایجنڈے میں کامیاب رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اک کمپنی کی انفرادی غلطی کو من حیث المجموع " اہل تشیع " کی غلطی ثابت کرتے " اسلام " توانا " کرنے اور " انتشار" پھیلانے کی کوشش اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔۔۔۔۔۔۔
ذکر اب چھڑ گیا " جمل و صفین " کا ۔ اب بات پہنچے گی اپنی انتہا پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بھول گئے شاید سورت الاحزاب میں بیان کردہ اللہ کا فیصلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس صف میں کھڑے ہونے سے بچائے جس صف پر اللہ اوراس کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔ آمین
 

فرقان احمد

محفلین
کوئی بھی فعل، جس سے مذہبی منافرت پروان چڑھے، قابل مذمت ہے ۔۔۔ ایرانی حکومت کو اس معاملے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے، مقدمہ چلانے کی حد تک معاملہ درست ہو گیا ہے ۔۔۔ سزا بھی دے دی جائے تو شاید آئندہ کے لیے ایسے فتنہ پرور عناصر کی حوصلہ شکنی ہو جائے گی ۔۔۔
 

دوست

محفلین
:applause:
ایک فون کمپنی کی غفلت اور غلطی سے شروع ہونے والی بات شیعہ سنی اختلافات، فرقہ وارانہ فسادات سے ہوتی ہوئی توہین کے قوانین اور جنگِ جمل تک جا پہنچی۔ اب دونوں طرف سے روایات کا مقابلہ ہو گا کہ کونسا صفین اور جمل میں حق پر تھا۔ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت، شیعہ کے رفض اور یہودی ابنِ سبا کی کارستانیوں کا ذکر ہو گا۔ پھر جب چودہ سو سال پرانے گڑے مردے بھی اکھاڑ کر کچھ نہیں بنے گا تو ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچیں گے اور دھاگہ بند ہو جائے گا۔
:redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
انجوائے دی شو :go-away:
 
:applause:
ایک فون کمپنی کی غفلت اور غلطی سے شروع ہونے والی بات شیعہ سنی اختلافات، فرقہ وارانہ فسادات سے ہوتی ہوئی توہین کے قوانین اور جنگِ جمل تک جا پہنچی۔ اب دونوں طرف سے روایات کا مقابلہ ہو گا کہ کونسا صفین اور جمل میں حق پر تھا۔ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت، شیعہ کے رفض اور یہودی ابنِ سبا کی کارستانیوں کا ذکر ہو گا۔ پھر جب چودہ سو سال پرانے گڑے مردے بھی اکھاڑ کر کچھ نہیں بنے گا تو ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچیں گے اور دھاگہ بند ہو جائے گا۔
:redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
انجوائے دی شو :go-away:
اختتام بتا کر سارا سسپنس ہی ختم کر دیا ، اب اگلی قسط دیکھنے کا مزا ہی نہیں آئے گا :lol:
 

سید ذیشان

محفلین
:applause:
ایک فون کمپنی کی غفلت اور غلطی سے شروع ہونے والی بات شیعہ سنی اختلافات، فرقہ وارانہ فسادات سے ہوتی ہوئی توہین کے قوانین اور جنگِ جمل تک جا پہنچی۔ اب دونوں طرف سے روایات کا مقابلہ ہو گا کہ کونسا صفین اور جمل میں حق پر تھا۔ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت، شیعہ کے رفض اور یہودی ابنِ سبا کی کارستانیوں کا ذکر ہو گا۔ پھر جب چودہ سو سال پرانے گڑے مردے بھی اکھاڑ کر کچھ نہیں بنے گا تو ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچیں گے اور دھاگہ بند ہو جائے گا۔
:redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
انجوائے دی شو :go-away:

ہاہاہا

آپ کوتو "اوریکل" ہونا چاہیے تھا۔

یہ ساری بحث کچھ لوگوں کو فضول اور کچھ کو فرقہ وارانہ منافرت لگے گی۔ میں ایسی بحثوں میں کم ہی الجھتا ہوں کہ ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ لیکن بعض اوقات یہ بحث ضروری ہو جاتی ہے۔

اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ شیعہ اور سنی مسلک میں اختلافات ہیں- بعض کے نزدیک یہ اختلافات سنگین ہیں اور بعض کے لئے یہ معمولی۔ ذاتی طور پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کا کیا عقیدہ ہے، اسی وجہ سے میرے نوے فی صد دوست سنی ہیں۔ پاکستان میں خصوصاً اور باقی ممالک میں عموماً ایک مہم چلائی جا رہی ہے کہ جس سے شیعہ کو کسی نہ کسی بہانے سے مطعون ٹہرا کر ان کا استحصال کیا جائے۔ یہ دھاگہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار تو ویسے ہی گرم ہے اور یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اسی محفل پر مجھے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور کئی جگہوں پر بار بار وہی جھوٹی باتیں universal truth بنا کر پیش کی جا رہی ہیں۔ اگر یہ صرف باتوں تک ہی محدود ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اب جب لوگوں کی جانیں لی جا رہی ہیں تو اس پر خاموش رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ Tolerance بہت ہی عمدہ چیز ہے لیکن intolerance کو tolerate نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر جب وہ خونی ہو جائے۔
کتابوں میں تو بہت کچھ لکھا ہوا ہے اور ایک مثال میں دے چکا ہوں- یہ مثال صرف اسی لئے دی ہے کہ جب آپ کسی پر انگلی اٹھاتے ہو تو چار انگلیاں آپ کی طرف بھی اٹھتی ہیں۔ اگر آپ صحابہ کی توہین کے بارے میں اتنا حساس ہو تو جنگ کرنے سے بڑی توہین کیا ہو گی، ان کے معاملے میں بھی وہی رویہ رکھو۔
یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو ہر معاملے کو black and white دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا" اور اپنے علاوہ ہر بات کو غلط اور سازش سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو grow up کرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا دو جمع دو چار نہیں ہے۔ اور کوئی بھی ہر بات میں ہر وقت صحیح نہیں ہو سکتا۔ کبھی انسان غلط ہوتا ہے کبھی صحیح۔ اگر کوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور دوسروں پر فیصلے صادر کرنا شروع کر دے تو انتہا پسندی وہیں سے جنم لیتی ہے۔
یہ باتیں کرنی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بہت سارے پڑھے لکھے لوگ بھی ان معاملات میں انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں، جہاں پر بات دوسرے فرقے کی آئی تو ہر چھوٹی بڑی بات کو بلا ثبوت قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نفرتیں مزید بڑھتی ہیں اور کہیں پر یہ خونی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔
میں یہ سب چیزیں بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں اور اس فرقہ واریت سے اسی لئے نفرت کرتا ہوں۔ ننانوے فی صد لوگ تو ویسے ہی اسی مسلک پر قائم رہتے ہیں کہ جس میں وہ پیدا ہوتے ہیں۔ تو ایسی چیزوں پر لڑنے کی کیا ضرورت جس میں تقریباً تمام لوگوں کا اختیار ہی نہیں ہے۔
بہتری اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے اور احسن طریقے سے زندگی گزاری جائے۔
 

ظفری

لائبریرین
دونوں فرقوں کے بنیادی عقائد کے قطع نظر اگر ان تمام معاملات کو غیرجانبداری کے حوالے سے تاریخی حقائق کے طور پر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ایک دوسرے کے لیئے بہت محبت اور احترام کا جذبہ رکھتے تھے ۔ اور ان کی اس محبت کی اللہ تعالیٰ نے بڑی تعریف کی ہے کہ " یہ میرا خاص کرم تھا کہ میں نے تم میں ایک دوسرے کے لیئے محبت پیدا کردی ہے " ۔
اس محبت اور ایثار کے معنی کیا ہوسکتے ہیں ۔ کیا ہم اس کو معنی میں لے سکتے ہیں کہ انسان اس محبت میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو ادا کرنے سے غافل ہوجائے ؟ ۔ نرم دلی ایک بڑی صفت ہے ۔ اور اگر اس صفت کے حامل شخص کو حکومتی منصب دیدیا جائے تو کیا اس کو تمام مجرموں کو معاف کردینا چاہیئے ؟ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نرم دلی کی کوئی تعریف نہیں ہے۔کیونکہ جب ایک شخص کسی اہم منصب پر فائز ہے تو اس کو انصاف ، شریعت اور اصولوں کا دفاع کرنا چاہیئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون نرم دل ہوسکتا ہے ۔ مگر جب وقت آیا اور اللہ نے آپ کو حکم دیا تو پھر آپ نے حدود بھی نافذ کیئے ۔ آپ نے مجرموں پر سزاؤں کا اطلاق بھی کیا ۔ بلکل اسی طرح کے معاملات جب صحابہ کرام کے سامنے آئے تو انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ۔ ہم ان کے اقدام سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ انہوں نے فیصلہ صحیح کیا یا غلط ۔
جس فتنے کے باعث مسلمانوں میں گروہ بندی ہوئی ۔ اگر ایمانداری سے اس کا تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو اس میں کیا ہوا ؟۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا ۔ اس صورتحال کو اُس 1400 سال قبل کے ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کے نظام کو مدنظر رکھ کر اگر آج کے ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں آج ٹیکنالوجی کیساتھ ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کے نظام کی کیا کیا سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ مگراس دور میں دارالحکومت میں ایک واقعہ ہوجاتا ہے اور کئی سال گذرنے کے باوجود ہم اس کے صحیح محرکات کا تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ ملک دو لخت ہوگیا مگر آج تک ہم کو نہیں معلوم کہ اصل مجرم کون ہے ۔ یعنی اس دور میں یہ صورتحال ہے ۔ اب ذرا اس دور کا تصور کیجیئے جہاں اطلاعات پہنچانے کا کوئی منظم نظام موجود نہیں ہے ۔ جو افواہ یا جس طرح کی بات آپ چاہیں ، دوسروں تک پھیلادیں ۔ سلطنت کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کسی خبر کو پہنچانے میں تین تین ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ حتیٰ کے گھڑ سوار قاصدوں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا ۔ اس صورتحال میں ایک سانحہ ہوگیا اور اس کے نتیجے میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰ عنہ نے اقتدار سنبھال لیا ۔ اب اگر ان اطلاعات کا جائزہ لیا جائے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر بزرگوں کو دی گئیں ہیں ۔ ان میں یہ تاثر صاف عیاں ہے کہ "ایک خلیفہ قتل کردیئے گئے ہیں ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ان کے قتل میں ملوث ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ موجود ہیں ۔ " ایسی اطلاعات نے معاملے کی ایسی نوعیت پیدا کردی کہ ایک دینی غیرت کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ یعنی آپ اگر ان کی نیتوں اور ان محرکات پر نہ جائیں تو ایسی صورتحال میں کوئی بھی بااثر شخص کوئی بھی اقدام اٹھا سکتا ہے ۔ بلکل اسی طرح اسی دور میں ہماری ملک میں بھی کئی فوجی " بغاوتیں " اسی قسم کی اطلاعات پر ہوئیں ۔ اور ہم آج بھی ان پر کئی حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔
چنانچہ اس دور میں وہ اطلاعات صحیح تھیں یا غلط ، وہ تو بعد کی بات ہے ۔ مگر کسی کو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا تھا ۔ کسی عقائد کے بلکل قطع نظر ان تمام معلومات میں مجھے یہی تاثر ملا کہ انہوں نے اپنی اپنی اطلاعات کی بنیاد پر قدم اٹھایا ۔ آپ اسے اجتہادی غلطی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔ مگر جب ہم آج اس پر تبصرہ کرتے ہیں تو ہمارے پاس بہت معلومات ہوتیں ہیں ۔ جو ممکن ہے کہ اس وقت فریقین کے پاس موجود نہ ہوں ۔ یعنی ہمارے بہت سے بیانات ہوتے ہیں ، تاریخی حقائق کے چھان بین ہوتی ہے اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔ یعنی اس صورتحال کے پیشِ نظریہ کہا جائے کہ حضرت علی ٌ اپنی معلومات کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ حضرت معاویہ ٌ نے بغاوت کی ہے تو وہ ان کے خلاف جنگ کریں گے ۔ اب یہ فیصلہ کسی کے نزدیک غلط اور کسی کے نزدیک صحیح بھی ہوسکتا ہے ۔ بلکل اسی طرح حضرت معاویہ ٌ اگر یہ سمجھیں گے کہ حضرت عثمانٌ کے قاتل حضرت علیٌ کے پاس پناہ لیئے ہوئے ہیں تو وہ ان کے خلاف جنگ کریں گے ۔ ان کے اس فیصلے سے بھی کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ صورتحال تھی کہ مسلمانوں میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوا ۔ ایک اجتہادی غلطی سیاسی غلطی بن گئی پھر اسے مذہبی رنگ میں ڈھال دیا گیا اور پھر فریقین عقیدت ، ہٹ دھڑمی ، ضد ، انا اور خاندانی نسب و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ایسے دست و گربیاں ہوئے کہ آج تک اس کام میں مصروف ہیں ۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
دونوں فرقوں کے بنیادی عقائد کے قطع نظر اگر ان تمام معاملات کو غیرجانبداری کے حوالے سے تاریخی حقائق کے طور پر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ایک دوسرے کے لیئے بہت محبت اور احترام کا جذبہ رکھتے تھے ۔ اور ان کی اس محبت کی اللہ تعالیٰ نے بڑی تعریف کی ہے کہ " یہ میرا خاص کرم تھا کہ میں نے تم میں ایک دوسرے کے لیئے محبت پیدا کردی ہے " ۔
اس محبت اور ایثار کے معنی کیا ہوسکتے ہیں ۔ کیا ہم اس کو معنی میں لے سکتے ہیں کہ انسان اس محبت میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو ادا کرنے سے غافل ہوجائے ؟ ۔ نرم دلی ایک بڑی صفت ہے ۔ اور اگر اس صفت کے حامل شخص کو حکومتی منصب دیدیا جائے تو کیا اس کو تمام مجرموں کو معاف کردینا چاہیئے ؟ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نرم دلی کی کوئی تعریف نہیں ہے۔کیونکہ جب ایک شخص کسی اہم منصب پر فائز ہے تو اس کو انصاف ، شریعت اور اصولوں کا دفاع کرنا چاہیئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون نرم دل ہوسکتا ہے ۔ مگر جب وقت آیا اور اللہ نے آپ کو حکم دیا تو پھر آپ نے حدود بھی نافذ کیئے ۔ آپ نے مجرموں پر سزاؤں کا اطلاق بھی کیا ۔ بلکل اسی طرح کے معاملات جب صحابہ کرام کے سامنے آئے تو انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ۔ ہم ان کے اقدام سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ انہوں نے فیصلہ صحیح کیا یا غلط ۔
جس فتنے کے باعث مسلمانوں میں گروہ بندی ہوئی ۔ اگر ایمانداری سے اس کا تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو اس میں کیا ہوا ؟۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا ۔ اس صورتحال کو اُس 1400 سال قبل کے ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کے نظام کو مدنظر رکھ کر اگر آج کے ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں آج ٹیکنالوجی کیساتھ ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کے نظام کی کیا کیا سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ مگراس دور میں دارالحکومت میں ایک واقعہ ہوجاتا ہے اور کئی سال گذرنے کے باوجود ہم اس کے صحیح محرکات کا تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ ملک دو لخت ہوگیا مگر آج تک ہم کو نہیں معلوم کہ اصل مجرم کون ہے ۔ یعنی اس دور میں یہ صورتحال ہے ۔ اب ذرا اس دور کا تصور کیجیئے جہاں اطلاعات پہنچانے کا کوئی منظم نظام موجود نہیں ہے ۔ جو افواہ یا جس طرح کی بات آپ چاہیں ، دوسروں تک پھیلادیں ۔ سلطنت کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کسی خبر کو پہنچانے میں تین تین ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ حتیٰ کے گھڑ سوار قاصدوں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا ۔ اس صورتحال میں ایک سانحہ ہوگیا اور اس کے نتیجے میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰ عنہ نے اقتدار سنبھال لیا ۔ اب اگر ان اطلاعات کا جائزہ لیا جائے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر بزرگوں کو دی گئیں ہیں ۔ ان میں یہ تاثر صاف عیاں ہے کہ "ایک خلیفہ قتل کردیئے گئے ہیں ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ان کے قتل میں ملوث ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ موجود ہیں ۔ " ایسی اطلاعات نے معاملے کی ایسی نوعیت پیدا کردی کہ ایک دینی غیرت کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ یعنی آپ اگر ان کی نیتوں اور ان محرکات پر نہ جائیں تو ایسی صورتحال میں کوئی بھی بااثر شخص کوئی بھی اقدام اٹھا سکتا ہے ۔ بلکل اسی طرح اسی دور میں ہماری ملک میں بھی کئی فوجی " بغاوتیں " اسی قسم کی اطلاعات پر ہوئیں ۔ اور ہم آج بھی ان پر کئی حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔
بلکل اسی طرح اس دور میں وہ اطلاعات صحیح تھیں یا غلط وہ تو بعد کی بات ہے ۔ مگر کسی کو تو اسی وقت اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے ۔ میں نے تو جہاں تک حقائق جاننے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں مجھے یہی تاثر ملا کہ انہوں نے اپنی اطلاعات کی بنیاد پر قدم اٹھایا ۔ اب آپ اسے اجتہادی غلطی سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ مگر جب ہم آج اس پر تبصرہ کرتے ہیں تو ہمارے پاس بہت معلومات ہوتیں ہیں ۔ جو ممکن ہے کہ اس وقت فریقین کے پاس موجود نہ ہوں ۔ یعنی ہمارے بہت سے بیانات ہوتے ہیں ، تاریخی حقائق کے چھان بین ہوتی ہے اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔ یعنی اب اگر کہا جائے کہ حضرت علی ٌ اپنی معلومات کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ حضرت معاویہ ٌ نے بغاوت کی ہے تو وہ ان کے خلاف جنگ کریں گے ۔ اب یہ فیصلہ کسی کے نزدیک غلط اور کسی کے نزدیک صحیح بھی ہوسکتا ہے ۔ بلکل اسی طرح حضرت معاویہ ٌ اگر یہ سمجھیں گے کہ حضرت عثمانٌ کے قاتل حضرت علیٌ کے پاس پناہ لیئے ہوئے ہیں تو وہ اس کے خلاف جنگ کریں گے ۔ ان کے اس فیصلے سے بھی کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ صورتحال تھی کہ مسلمانوں میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوا ۔ ایک اجتہادی غلطی سیاسی غلطی بن گئی پھر اسے مذہبی رنگ میں ڈھال دیا گیا اور پھر فریقین عقیدت ، ہٹ دھڑمی ، ضد ، انا اور خاندانی نسب و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ایسے دست و گربیاں ہوئے کہ آج تک اس کام میں مصروف ہیں ۔

آپ کے خیالات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے میں آپ کی رائے کا پورا احترام کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ عقل مند انسان ہیں اور پوری تحقیق کے بعد ہی اسی رائے پر پہنچے ہیں۔ صفین کی بات کر کے میرا مقصد کسی قضیے کو دوبارہ زندہ کرنا نہیں تھا- یہ اختلاف چودہ صدیوں سے ہے اور اگے بھی رہے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود ہم ایک دوسرے کے اختلاف کے حق کو تسلیم کریں اور امن کیساتھ رہیں۔ یہ بات شائد repetitive لگے کہ میں پہلے بھی محفل پر کر چکا ہوں۔ امریکہ کے ایک مسلمان لیڈر میلکم ایکس کو جب قتل کیا گیا، وہ زمانہ امریکہ میں نسلی فسادات کا زمانہ تھا۔ اس پر مارٹن لودھر کنگ نے کہا تھا:
"We haven't learnt to disagree with each other without being violently disagreeable "
یہ بات ہم پر بھی صادق آتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کے خیالات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے میں آپ کی رائے کا پورا احترام کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ عقل مند انسان ہیں اور پوری تحقیق کے بعد ہی اسی رائے پر پہنچے ہیں۔ صفین کی بات کر کے میرا مقصد کسی قضیے کو دوبارہ زندہ کرنا نہیں تھا- یہ اختلاف چودہ صدیوں سے ہے اور اگے بھی رہے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود ہم ایک دوسرے کے اختلاف کے حق کو تسلیم کریں اور امن کیساتھ رہیں۔ یہ بات شائد repetitive لگے کہ میں پہلے بھی محفل پر کر چکا ہوں۔ امریکہ کے ایک مسلمان لیڈر میلکم ایکس کو جب قتل کیا گیا، وہ زمانہ امریکہ میں نسلی فسادات کا زمانہ تھا۔ اس پر مارٹن لودھر کنگ نے کہا تھا:
"We haven't learnt to disagree with each other without being violently disagreeable "
یہ بات ہم پر بھی صادق آتی ہے۔
شکریہ ۔ آپ کے کئی خیالات سے مجھے بھی اختلاف ہے ۔ مگر میں بھی بھرپور انداز میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں ۔ اللہ نے جس اصول پر یہ دنیا بنائی ہے ۔ اس میں اختلاف اور تنوع ہمیشہ موجود رہے گا ۔ اور آپ کے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ ہم کسی بھی نکتے ، نظریئے ، عقائد اور خیالات پر سو فیصد کسی بھی طور پر متفق نہیں ہوسکتے ۔ مگر اس اختلاف کو ہم عناد ، دشمنی اور نفرت کی بنیاد نہ بنائیں بلکہ ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کا احترام کرتے ہوئے اگر ایک دوسرے کی غلطیوں کو شائستگی کے ساتھ واضع کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ چائے ایک ساتھ پی کر گلے ملکر رخصت ہوجائیں ۔
 
اگر تو آپ کا مقصد مثبت گفتگو ہے تو دلیل سے بات کیجئے ورنہ تو اپنے جاہلانہ کمنٹس اپنے پاس رکھیے۔



توہین رسالت کا قانون ایک ڈکٹیٹر کی پیداوار ہے- ابھی پچھلے چند ایک کیسز کا ہی مطالعہ کیجئے کہ ان میں اس قانون کا استعمال کس طرح سے زمین ہتھیانے کے لئے کیا گیا۔ اور ایسے کتنے ملزمان کو جیل میں قتل کیا گیا ہے۔
آپ بنائیں قانون لیکن قوانین یک طرفہ نہیں ہوتے ہیں اگر کوئی خلفہ ثلاثہ کے خلاف نازیبہ زبان استعمال کرے تو اس کو جیل میں ڈالا جائے لیکن ساتھ میں جو لوگ حضرت علی کیساتھ جنگ کرنے والوں کی تعریفیں کریں ان پر اس قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ جب آپ صحابہ کی توہین کی بات کرتے ہیں تو ایک بڑے صحابی اور خلیفہ کیساتھ جنگ کرنے سے بڑی تو کوئی توہین نہیں ہو سکتی نا؟ اور ان سے بڑے دشمن بھی کوئی نہیں ہو سکتے؟



اب ایسا کیا ہوا ہے جو چنگاری لاوا بن گئی ہے؟ سنی شیعہ تو اس علاقے میں صدیوں سے آباد ہیں، اب کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ہے جو آپ جیسے لوگ بدک گئے ہیں؟




آپ جیسے شدت پسند گالی اور بریکٹ میں تبرا لکھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ شیعہ سب کے سب غلیظ لوگ ہیں جن میں تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ چونکہ میں نے تبرا کو دین کا حصہ کہا اب آپ کہہ سکیں گے کہ یہ دیکھو کیسا دین ہے انکا جس میں گالی دینا دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ جیسے manipulative ذہنیت کے لوگوں کو میں خوب سمجھتا ہوں۔ اور چنگاری کو لاوا آپ جیسے چھوٹے ذہن کے لوگ بنا رہے ہیں، جو کہ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفادار بن رہے ہیں۔ دکان تو مولوی کی چمکتی ہے، اور آپ جیسے لوگوں مال مویشی کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔



آپ کریں منافرانہ باتیں، مدیر حضرات آپ کو زبردست کی ریٹنگ ویسے ہی عنایت کر رہے ہیں، آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی۔


بہت خوب سید ذیشان۔
تبرے بازی کا شوق تو اپنی پوسٹ میں آپ نے پورا کر لیا۔چھوٹا ذہن، جاہلانہ مینو پیلٹڈ سوچ، مال موشی دکان داری۔۔امید ہے اگلی پوسٹ میں مزید آپ کے اس شوق کے نئے نئے نمونے سامنے آئیں گے۔

افسوس آپ نہ بات سمجھتے ہیں اور نہ اٹھائے گئے نکات کا جواب صحیح طور پر دے پائے ہیں۔
پھر آپ نے توہین رسالت کے قانون کا مسئلہ اٹھایا ہے اچھا پھر ایسا کرتے ہیں کہ سارے قوانین کو معطل کر دیتے ہیں کہ ہر قانون کا یا تو غلط استعمال ہوتا ہے یا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ گاوں دیہات کے ادنا پٹواری و زمین دار تک قوانین کو استعمال کرتے ہیں اپنے مخالفین کے خلاف۔ کہا کہنے آپ کی لوجک کے
حضرت علی کی جنگ کے حوالے سے اوپر کچھ حضرات باتیں کر چکے ہیں مجھے اس معاملے میں کچھ کہنے کا شوق نہیں کہ حضرت علی کا اختلاف یا جنگ جن لوگوں سے ہوئی وہ ان کے ہم پلہ لوگ تھے ۔جبکہ میں ان لوگوں کے غلاموں کے کفش برداروں کی صف میں شامل ہونے کے بھی لائق نہیں۔ اور آخری چیز یہ کہ منافرانہ سوچ اسی کانام ہے کہ ہر چیز میں مخالفانہ باتیں اور اکابریں کو گھسیٹ کر ماحول کو خراب کیا جائے۔
تبرا کی تعریف کے لیے میں سیدذیشان صاحب کا محتاج نہیں اور نہ ہی مجھے ان کی کسی تشریح اور وہ بھی ایسی تشریح جس کے بارے میں شعر صادق آتا ہو
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا ؎
کہ ناحق خؤن پروانے کا ہو گا
کی پروا ہ ہے۔ اوپر آپ کا مشورہ آپ کی نظر تھوڑی سی تبدیلی کے بعد
"اگر تو آپ کا مقصد مثبت گفتگو ہے تو دلیل سے بات کیجئے ورنہ تو اپنے (عاقلانہ تشریح )اپنے پاس رکھیے۔ "
نیز تبرے سے معاملات سلجھتے ہیں یا بگڑتے ہیں اس کے لیے کیا کسی تشریح کی ضرورت ہے بھی؟
اور حضرت یہ کوئی عامر لیاقت شو نہیں چل رہا کہ ریٹنگ کا معاملہ آپ درمیان میں لے آئے۔ اللہ جانے کیا کچھ آپ کے کارخانہ ذہن میں چل و پک رہا ہے؟
 
Sahih Bukhari Volume 1, Book 8, Number 438 :
Narrated by 'Ikrima
Ibn 'Abbas said to me and to his son 'Ali, "Go to Abu Sa'id and listen to what he narrates." So we went and found him in a garden looking after it. He picked up his Rida', wore it and sat down and started narrating till the topic of the construction of the mosque reached. He said, "We were carrying one adobe at a time while 'Ammar was carrying two. The Prophet saw him and started removing the dust from his body and said, "May Allah be Merciful to 'Ammar. He will be inviting them (i.e. his murderers, the rebellious group) to Paradise and they will invite him to Hell-fire." 'Ammar said, "I seek refuge with Allah from affliction."

حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد العزيز بن مختار، قال حدثنا خالد الحذاء، عن عكرمة، قال لي ابن عباس ولابنه علي انطلقا إلى أبي سعيد فاسمعا من حديثه‏.‏ فانطلقنا فإذا هو في حائط يصلحه، فأخذ رداءه فاحتبى، ثم أنشأ يحدثنا حتى أتى ذكر بناء المسجد فقال كنا نحمل لبنة لبنة، وعمار لبنتين لبنتين، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم فينفض التراب عنه ويقول ‏"‏ ويح عمار تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار ‏"‏‏.‏ قال يقول عمار أعوذ بالله من الفتن‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے ، انھوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو ۔ ہم گئے ۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے ۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے ۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے ۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا ، افسوس ! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی ۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔
hadith-ammar-13.jpg
 
Top