ایران، امریکہ اور اسرائیل

یوسف-2

محفلین
news-73.gif
 

x boy

محفلین
پہلے ڈرامہ چل رہا تھا، کب سے نیوز سوشل میڈیا میں چل رہا تھا کہ
امریکہ، اسرائیل ، ایران اور لبنان لنگھوٹے یار ہیں
ان سب کا ایک ٹارگیٹ ہے وہ ہے عرب ممالک پر قبضہ ۔
افغانستان ،عراق، شام، لبنان اسی طرح دیگر مسلمان ملکوں میں اپنے ایجنٹ
بٹھادیے ۔
اللہ مسلمانوں کی خفاظت کرے آمین
ہم مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے ورنہ راولپنڈی جیسی دھشت گردی پھر ہر جگہہ
ہونے لگے گی، ایران مسلسل پاکستان کے حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے اور یہ سب چاہتے
ہیں کہ ایک جگہہ سے انڈیا، دوسری جگہہ سے افغانستان،تیسری جگہہ سے ایران کے ذریعے
پاکستان کی فوجی قوت کو مصروف رکھا جائے اور ایک دن اس پر قبضہ کرکے عراق ، افغانستان
بنادیا جائے ، ان شاء اللہ یہ ان لوگوں کا خواب رہ جائیگا۔ اور کفر کو منہ توڑ جواب دینگے۔
ان شاء اللہ، ان شاء اللہ ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ ،
 

x boy

محفلین
ایک اور ڈرامہ یہاں سے پڑھنا شروع کریں۔

logo.jpg

ایران پاکستان کی طرح دھوکے سے ایٹمی ہتھیار نہیں بناسکتا، اوباما
خبر ایجنسیاں
۔

205419-barakobamareuters-1386541199-524-640x480.JPG

ایران سے جوہری معاہدہ اسرائیلی توقعات کے مطابق ممکن نہیں، امریکی صدر کا اظہار خیال۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

واشنگٹن: امریکی صدراوباما نے اسرائیل کے اس خدشے کومسترد کیاہے کہ ایران اسی طرح ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے جس طرح پاکستان اورشمالی کوریانے بنائے۔

امریکی صدرکا کہناہے کہ تہران کے ایٹمی پروگرام کاتصدیقی میکنزم انتہائی مثالی ہے اوراس کے لیے دھوکادینا ممکن نہیں۔ گزشتہ روزدسویں سالانہ سبان فورم کی میٹنگ کے موقع پرصدر اوباماسے سوال کیا گیاکہ سابق امریکی صدر رونالڈریگن نے اس عزم کااظہار کیاتھا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیارنہیں بنائے گا، اسی طرح سابق امریکی صدربل کلنٹن نے بھی یہ عزم ظاہرکیا تھاکہ شمالی کوریاایٹمی ہتھیارنہیں بنائے گاتاہم ایسانہیں ہوا اور دونوں ممالک نے ایٹمی ہتھیاربنائے۔

655.jpg


اس کے جواب میںامریکی صدرنے کہاکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کوئی حکومتی معائنہ، عالمی پابندیاںاور اقوام متحدہ کی قراردادیںنہیں تھیں۔ اوبامانے مزیدکہا کہ ایران کے ساتھ جامع معاہدے کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اسرائیل کی توقعات کے مطابق ممکن نہیں۔ اوباماکا کہناتھا کہ امریکاہمیشہ اسرائیل کی حفاظت کرے گا۔ ہم خطے میںاپنے دوستوںاور اتحادیوںکے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لیںگے۔ ایران کو پرامن مقاصدکے لیے یورنییم افزودگی کی اجازت دینے کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیںتھا۔
 

x boy

محفلین
logo.gif

http://www.alarabiya.net/articles/2011/01/11/133094.html
ایران ۔ اسرائیل انٹلیجنس اداروں نے مشترکہ تفتیش کی

اسیر ایرانی صحافی نے العربیہ کے سامنے تہران ۔ تل ابیب دشمنی کا بھانڈا پھوڑ دیا
منگل 07 صفر 1432ه۔ - 11 جنوری 2011م
ajax-small-loader.gif

436x328_14618_133094.jpg






دبئی، بیروت ۔ سعود الزاھد، ایلیا جزائری
ایران کی ایک جیل میں زیر حراست صحافی نادر کریمی نے انکشاف کیا ہے کہ تہران اور تل ابیب کے درمیان گہرے دوستانہ لیکن خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ نادر کریمی کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران 200 گھنٹے تک ایرانی انٹیلی جنس کے اہلکاروں جبکہ 20 گھنٹے اسرائیلی خفیہ ایجنسی "موساد" کے جاسوسوں نے اس سے پوچھ تاچھ کی ہے جو اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات قائم ہیں۔

العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسیر ایرانی صحافی نےاہم نوعیت کے یہ خفیہ انکشافات تہران کی ایک جیل میں ایک ملاقاتی "ایو ین" کےذریعے العربیہ تک پہنچائے ہیں۔ کریمی کا کہنا ہے کہ ایرانی محکمہ انٹیلی جنس اور موساد کے اہلکار دوران تفتیش اسے جسمانی اذیت کابھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس کاکہنا ہے کہ وہ جیل سے رہائی کے بعد اپنے اوپر بیتی جانے والی داستان قلمبند کرنے کے ساتھ ایران اور اسرائیل کےدرمیان خفیہ تعلقات کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھیں گے جس میں وہ تمام مشاہدات پیش کیے جائیں گے جو وہ جیل میں رہ کر دیکھ چکے ہیں۔ نادر کریمی نے ملاقاتی کو بتایا کہ ایرانی جیلوں میں اسیران سے موساد کے اہلکاروں کا تفتیش کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تہران اور تل ابیب کے آپس میں گہرے دوستانہ روابط ہیں۔ ان کی مخالفت صرف ظاہری اور نمائشی ہے۔

خیال رہے کہ نادر کریمی ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور ان کے قدامت پسند حامیوں کے سخت ناقد سمجھے جاتے رہے ہیں۔عراق ۔ ایران جنگ کے دوران وہ پاسداران انقلاب میں شامل تھے اور جنگ میں زخمی بھی ہوئے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت سے وابستگی اختیارکی اور فارسی اخبارات "سیاست روز"، "جہان صنعت" اورجریدہ "گزارش" کے مدیراعلیٰ کے فرائض انجام دیے۔

انہیں سنہ 2009ء میں صدارتی انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں اوراصلاح پسندوں کے احتجاجی مظاہروں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔ان پر ایرانی حکومت اور اسلامی انقلاب کے خلاف لکھنے کی پاداش میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد نادر کریمی کے وکیل کی طرف سے سزا کے خلاف دائر اپیل کے بعد یہ سزا کم کر کے 05 سال کردی گئی تھی۔

ایک ماہ قبل ایرانی سرکاری ٹی وی نے نادرکریمی کے مبینہ اعتراف جرم کی ایک ویڈیونشرکی تھی۔ تاہم کریمی نے العربیہ.نیٹ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں ان اعترافات کوخلاف حقیقت قراردیا تھا۔ کریمی کا کہنا تھا کہ ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں نے اس سے یہ اعترافات تشدد کے ذریعے لیے ہیں۔

نادر کریمی کا کہنا ہے کہ وہ ایران اوراسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات بارے جو کتاب تحریرکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے لیے موساد کے کئی ایجنٹوں سے انٹرویو بھی لیے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی گرفتاری سے قبل وہ ترکی میں موسادکے کئی جاسوسوں سے بھی مل چکے ہیں جن سے اسے نہایت کارآمد معلوما حاصل ہوئی ہیں۔

تہران ۔ تل ابیب میں صرف لفظی جنگ
بظاہر ایران اور اسرائیل کے درمیان نظر آنے والی کشیدگی اور سرد مہری کے بارے میں نادرکریمی نے کہا کہ "یہ صرف الفاظ کی جنگ ہے۔ ایران صرف اسلامی دنیا کو دکھانے کے لیے اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں سے ہمدردی جتانے کی کوشش کرتا ہے۔ ورنہ اندرون خانہ دونوں ملکوں کی آپس میں کوئی ایسی دیرینہ دشمنی نہیں"۔

ایک سوال کے جواب میں نادرکریمی نے کہا کہ "حالات ایسے بھی نہیں جن سےایران کو اسرائیل سے کوئی خطرہ لاحق ہو۔ ایرانی میڈیا تک ملکی خارجہ پالیسی کی شکل ایک اور انداز میں پہنچتی ہے اور ایرانی فیصلہ ساز ادارے کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں۔ ایران میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو فیصلہ ساز شخصیات اور انٹیلی جنس سے متعلق اداروں کے افسران بالاسے ملنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے میڈیایا حقیقت احوال سے لاعلم حقیقت جاننے سے قاصررہتا ہےکہ آیا تہران اور تل ابیب کے درمیان کس نوعیت کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں"۔

کریمی کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں اپنے اپنے میڈیا کو ایک دوسرے کے لیے تیارکردہ دشمنی کے غبارے میں ہوابھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دشمنی کا اظہار صرف فوائد کےلیے
اسیر ایرانی صحافی ایران اور اسرائیل کے امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اس سوال پر کہ آیا ایران اور اسرائیل کی ایک دوسرے سے بظاہردشمنی کے اظہارکی وجہ ہو سکتی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ دوستی بھی قائم ہے، ایرانی صحافی نے کہا کہ "یہ ایک اہم سوال ہے کہ دونوں ملک ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس کا جواب بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اگر دونوں ملک اعلانیہ باہمی تعلق قائم کریں تو ان کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ صرف ایک دوسرے سے دشمنی اور مخاصمت کے پھل کاٹ رہے ہیں۔

کریمی نے بتایا کہ اسیری سے قبل اس نے کئی سیاسی اور سفارتی شخصیات سے انٹرویو کئے اور ان سے ملاقاتیں کی۔ سیاست دانوں اور چوٹی کے رہنماٶں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں کافی حد تک یقین ہو گیا ہے کہ ایران کی اسرائیل کے بارے میں اعلانیہ اور خفیہ پالیسی میں اچھا خاصا تضاد موجود ہے۔ تاہم اگر دونوں ملکوں کے درمیان کسی حد تک مخالفت نظر آتی ہے تو صرف جزوقتی مفادات کے لیے ہے۔ اس مخالفت کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ وہ واقعی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ دراصل اس مخالفت کے پردے میں وہ ایک دوسرے کے نفع کا سامان کر رہے ہوتے ہیں"۔

ایران، اسرائیلی مصنوعات کا خریدار
نادر کریمی نے ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ دوستی کا پردہ چاک کرتے ہوئے العربیہ کو بتایا کہ "یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ ایران میں اسرائیلی مصنوعات کی خرید وفروخت پر کوئی پابندی عائد ہے۔ اگرچہ ایران عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اسرائیل کے خلاف سخت تلخ لہجہ استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ایران یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی مراسم نہیں لیکن اس کے باوجود تہران میں نہ تو اسرائیلی فرموں کی ایسی کوئی فہرست موجود ہے جن کی مصنوعات پر پابندی ہو اور نہ ہی ایرانی مارکیٹ تک پہنچنے والی اسرائیلی مصنوعات کی راہ روکی جاتی ہے۔ ایرانی حکومت کے کئی سرکردہ لیڈر اور ان کی کمپنیاں اسرائیل سے باضابطہ طور پر کئی چیزیں منگواتے ہیں جن میں میوہ جات اور دیگر اشیاء بھی شامل ہیں"۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ایران اوراسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک ایران ۔ عراق جنگ کے بعد سے اب تک مسلسل دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کا اسلحہ فراہم کرکے اپنی جیبیں بھی گرم کررہے ہیں۔ ایران اپنے مغربی ثالثوں کے ذریعے نہ صرف مغرب کا اسلحہ اور جدید آلات خرید رہا ہے بلکہ اسرائیل میں تیارکی جانے والی جنگی مصنوعات بھی حاصل کی جا رہی ہیں"۔

فلسطینیوں کو جاسوسی پر مجبور کرنا
زیرحراست ایرانی صحافی نادر کریمی نے بتایا کہ ایرانی حکومت کے فلسطینیوں کے حقوق کے دعوے صرف نمائشی اور کھوکھلے ہیں، حقیقت میں ایرانی حکومت ملک میں زیر تعلیم فلسطینیوں کو ایرانی انٹیلی جنس اداروں کے لیےجاسوسی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

نادر کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت فلسطینی طلبہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ فلسطین کے مسلح گروپوں، سیاسی جماعتوں اور ایران میں قائم عرب ممالک کے سفارت خانوں کے بارے میں ان کے لیے جاسوسی کریں اور خفیہ معلومات ان تک پہنچائیں۔

ایک مثال دیتے ہوئے کریمی نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایرانی انٹیلی جنس اداروں نے تہران سے اسلامی تاریخ میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ایک فلسطینی نوجوان کو تہران میں اردن اور سوڈان کے سفارت خانوں کی جاسوسی پر مامور کیا، تاہم کچھ عرصہ بعد انٹیلی جنس حکام کو اس پر کچھ شبہ ہوا جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد اسے 15 ماہ تک جیل میں رکھا گیا بعد ازاں ایران سے بے دخل کر دیا گیا۔
 

x boy

محفلین
آہستہ آہستہ ایران منافقین سامنے آتا جارہا ہے
کل ہوئی نے سعودی بارڈر پر حملہ کیا تھا جس سے سعودی باڈر کے مخافظ شہید ہوئے اور کافی زحمی بھی ہوئے
حملہ کرنے والے ایرانی آشرواد والے منافقین خوتی ہیں انہوں یمن سے میزائیل کے ذریعے بھی حملے کیے۔ ایرانی ساختہ
میزائل اب ہر تخریب کاری کے لئے استعمال ہوگا۔
 
اس قسم کی اوٹ پٹانگ افواہیں چھوٹے موٹے اخبارات پھیلاتے ہی رہتے ہیں مثلا یہ دیکھیے روزنامہ اسلام کا شوشہ
حوثی باغیوں کو اسرئیل کی جانب سے ہتھیار فراہمی کا انکشاف
مورخہ 7 اپریل 2015
mag-04.gif

mag-04-2.gif
 
Top