اہلِ دل جانتے ہیں دل کا سزا ہو جانا - فرحان محمد خان

اہلِ دل جانتے ہیں دل کا سزا ہو جانا
آن کی آن میں بندے کا خدا ہو جانا

آ زیارت کو مری واعظِ ناداں آ دیکھ
تُو نے دیکھا نہیں آدم کا فنا ہو جانا

رقصِ بسمل نہیں دیکھا تُو نے اللہ اللہ
خاک جانے تُو پھر انساں کا ہوا ہو جانا

تم کو دیکھا تو یہ معلوم ہوا ہے جاناں
کس کو کہتے ہیں اوسان خطا ہو جانا

آتشِ عشق میں جلنے سے یہ محسوس ہوا
"درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا "

ہو جو مائل بہ کرم اتنی عناعت کرنا
پاس بیمارِ محبت کہ ذرا ہو جانا

اہل ایماں کو خبر تک نہیں اس کی واللہ
اک قیامت ہے خدایا ترا کیا ہو جانا ؟​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اہلِ دل جانتے ہیں دل کا سزا ہو جانا
آن کی آن میں بندے کا خدا ہو جانا
۔۔واضح نہیں ہوا۔ کوئی خامی نہیں البتہ

آ زیارت کو مری واعظِ ناداں آ دیکھ
تُو نے دیکھا نہیں آدم کا فنا ہو جانا
÷÷÷یہ بھی واضح نہیں۔
رقصِ بسمل نہیں دیکھا تُو نے اللہ اللہ
خاک جانے تُو پھر انساں کا ہوا ہو جانا
÷÷ایضاً، ’تو نے‘ کا ’تُنے‘ تقطیع ہوا بھی ناگوار ہے۔
تم کو دیکھا تو یہ معلوم ہوا ہے جاناں
کس کو کہتے ہیں اوسان خطا ہو جانا
۔۔÷دورا مصرع خارج از بحر ہے

آتشِ عشق میں جلنے سے یہ محسوس ہوا
"درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا "
÷÷ٹھیک ہے۔
ہو جو مائل بہ کرم اتنی عناعت کرنا
پاس بیمارِ محبت کہ ذرا ہو جانا
÷÷عنایت؟ دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا۔
اہل ایماں کو خبر تک نہیں اس کی واللہ
اک قیامت ہے خدایا ترا کیا ہو جانا ؟
÷÷یہ بھی واضح نہیں ہوا۔
اگر پوری غزل میں تصوف کی کارفرمائی ہو تو شاید مجھے غلط ٹیگ کیا ہے۔ تصوف نہ میں سمجھتا ہوں اور نہ سمجھنا چاہتا ہوں!!
 
Top