اگرچہ گردِ سفر ہے باقی، بدن تھکن کے حصار میں ہے ۔ عبیدالرحمٰن عبید

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اگرچہ گردِ سفر ہے باقی، بدن تھکن کے حصار میں ہے
مگر یہ وحشت نئے سفر کی طوالتوں کے خمار میں ہے

رواں دواں ہوں نفس نفس میں، اُسی کی جانب، وہی ہے منزل
وہ اک بُلاوا کہ سُن رہا ہوں، جو بے صدا اک پُکار میں ہے

خزاں کی یرقاں گزیدگی میں سبھی گل و برگ مر گئے ہیں
یہ خوش گماں کون ہے ابھی تک کہ جو اُمیدِ بہار میں ہے

یہ سنگ چہرے، یہ مسخ چہرے، ڈرے ڈرے سے، دھواں دھواں سے
یہ کیسی بستی میں آگئے ہیں کہ ہر نفس انتشار میں ہیں

جب اُن کو اذنِ سفر ملا تھا تو سارے افلاک زیرِ پا تھے
اُنہی کے قدموں کی دھول ہے جو فلک پہ روشن غبار میں ہے


وہ ایک رشتہ کہ موسموں کی ہر ایک شدت میں جاں سپر ہے
سراپا ایثار و جاں نثاری، دعا سراپا شعار میں ہے

رفیق آنکھیں کہ درد و صحرا میں بھی پیامِ سلامتی ہیں
شفیق لہجہ کہ دشت میں بھی محبتوں کی پھوار میں ہے

فریبِ حسن و جمالِ دنیا میں گم رہوگے عبید کب تک
یہ دامِ رنگیں خسارہء انس کے ابھی انتظار میں ہے

عبید الرحمٰن عبید

 
Top