نوشی گیلانی اک پشیمان سی حسرت سےمجھے سوچتا ہے

عاطف بٹ

محفلین
اک پشیمان سی حسرت سےمجھے سوچتا ہے
اب وہی شہر محبت سے مجھے سوچتا ہے​
میں تو محدود سے لمحوں میں ملی تھی اس سے
پھر بھی وہ کتنی وضاحت سے مجھے سوچتا ہے​
جس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے مجھے سوچتا ہے​
میں تو مر جاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اسے
اور وہ کتنی سہولت سے مجھے سوچتا ہے​
گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مجھے سوچتا ہے​
کتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اک نئے رخ نئی صورت سے مجھے سوچتا ہے​
 
Top