اک شب

فائضہ خان

محفلین
بچھڑ رہے ہیں تو اک کام کرتے ہیں
ایک شب ماضی کے نام کرتے ہیں
تم بھی اٹھا لانا لمحے محبت کے
میں بھی سمیٹ لاوں گی احساس
پہلی چاہت کا
تم وہی پہننا جو اس دن پہنا تھا
میں بھی وہی سیاہ ساڑھی اور جوڑا
باندھوں گی
تم آنا ہاتھ میں سرخ گلاب لیے
پھر وہی گلاب میرے جوڑے میں سجا دینا
میں تحفہ وہی پرفیوم لاوں گی
جس کی خوشبو تمہیں میری یاد دلاتی تھی
پھر اپنے اپنے احساسات محبت کو ہم ماضی سے نکالیں گے
تم ترتیب دینا سالوں کی رفاقت کو
بنا کر میں چائے لاوں گی
پھر مل کے دیکھیں گے قدم کہاں کہاں پر ڈگمگائے تھے
کہاں لہجے بدلے تھے کہاں پر مان ٹوٹا تھا
سب غلطیاں کاغذ پر لکھیں گے
پھر دس بار تم پڑھنا
دس بار میں پڑھوں گی
وہ کاغذ پھاڑ دیں گے ہم
کہیں پر پھینک دیں گے ہم
تم اسی چاہت سے دیکھنا مجھ کو
میں اسی انداز سے مسکراوں گی
محبت کا نوحہ نہیں
گیت لکھیں گے
انوکھی تاریخ لکھیں گے
جا تو رہے ہیں اک کام کرتے ہیں
اک شب اک دوجے کے نام کرتے ہیں
مکمل محبت کی ذات کرتے ہیں

فائضہ خان
 
Top