محمد خرم یاسین
محفلین
گوندا کی بیگم سنیتا آہوجا کے ایک انٹرویو (ٹائمز انڈیا) نے چونکا دیا۔۔۔یقین کیجیے، میں کئی باتوں پر حیران ہوا۔۔۔اس بات پر ازسرِ نو غور کیا کہ آخر یہ زندگی، جو لڑکپن میں زندگی کا بوجھ اٹھانے سے بوڑھاپے تک والدین، بہن بھائی اور پھر بچوں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے صرف ہوجاتی ہے، اور ہم خود سے کہیں دور تنہا اور زمانے اور ذمہ داریوں کے بوجھ تل گم ہوجاتے ہیں، کیا پھر بھی اس میں کسی مقام تک پہنچ پاتے ہیں؟؟؟ کوئی عزت کما پاتے ہیں؟؟؟ اور اگر پا بھی لیں تو اس مقام پر دنیا کی واہ واہ، کمال ہے، کیا بات ہے کے باوجود ہمیں گھر میں چین سکون مل پاتا ہے ؟؟؟
گووندا جس نے بالی ووڈ پر دو سے تین دہائیوں تک راج کیا اور دولت و شہرت کا استعارہ رہا ہے۔ اس کی بیگم چاہتی ہے کہ وہ آج بھی اتنا ہی کامیاب، توانا، صحت مند ہو جتنا جوانی میں تھا۔۔۔ نیٹ فلکس ایسی نئے دور کی ضروریات کو سمجھے اور اس کے ارد گرد جو ایک دو دوست اور سیکرٹری اس کے مداح ہیں، ان سے جان چھڑا کر پھر سے آگے بڑھے۔۔۔بظاہر تو یہ خواہش مناسب لگتی ہے لیکن تصور کیجیے کہ یہی خواہش اس کی زندگی کے لیے طعنہ بن چکی ہو، حالات سازگار نہ ہوں اور ایک ساٹھ سالہ بوڑھا یہ سب کرنے کے قابل نہ رہا ہو تو بیگم کو صبر کرنا چاہیے اس کے ساتھ اچھا وقت بیتانا چاہیے یا پھر ۔۔۔
جس بات نے مجھے بہت تکلیف دی اور دکھی بھی کیا وہ بھی سنیتا کی اس خواہش سے جڑی ہے کہ اس کا پسندیدہ اداکار ہالی ووڈ کا سلوسٹر سٹالون
ہے ( جس نے ریمبو اور راکی کے مشہور زمانہ کردار نبھائے تھے) اور گووندابیگم کی خواہش کے تحت ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیگم اسے کہتی ہے کہ تم اگلے جنم بھی ویسے نہیں بن سکتے۔ کیا ازدواجی زندگی میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ویسا دیکھیں یا ویسا بننے کے چکر میں اپنی زندگی کو اجیرن کرلیں جیسا ہمارا جیون ساتھی دیکھناچاہتا ہے؟؟؟ ہمارا معاشرہ رنگ گورا کرنے والی کریموں، آرمی چیف ایسے پروٹوکول، لش پش گاڑیوں اور بڑے بنگلوں کے خوابوں سے کب نکلنا چاہے گا اور حقیقی زندگی کی جانب لوٹے گا؟؟؟
مجھے یقین ہے کہ گووندا کی ساتھ سنیتا نے اس کی شہرت، دولت اور عزت دیکھ کر شادی کی ہوگی۔ اب جب کہ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ رخصت ہورہا ہے تو وہ فکر مند ہے اور ماضی کے کامیاب ترین اداکار کے حوالے سے اس کے بیانات اور انٹرویو اس جانب سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ ہمیں شادی یا زندگی کے ہم سفر کے لیے کچھ اور معیارات طے کرنے چاہیں اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وقت کے ساتھ آپ کی خوبصورت بیوی یا شوہر پہلے جیسا خوبصورت اور توانا نہ رہے، اس کی دولت و شہرت کم ہوجائے یا کوئی ایسا نیا دور آجائے جس کی ٹیکنالوجی ہی آپ کی مہارت کو رخصت کردے۔۔۔ کیا اس وقت بھی آپ اسے اسی محبت اور عزت کا حق دار سمجھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اگر ہاں! تو یقینا آپ ایک اچھی زندگی کی جانب رواں دواں ہیں اور اگر نہیں۔۔۔تو ابھی سے اپنی راہ کا تعین کرلیجیے، نہ خود اپنی زندگی کو عذابناک بنائیے اور نہ ہی جیون ساتھی کی۔۔۔۔!ؔ
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
گووندا جس نے بالی ووڈ پر دو سے تین دہائیوں تک راج کیا اور دولت و شہرت کا استعارہ رہا ہے۔ اس کی بیگم چاہتی ہے کہ وہ آج بھی اتنا ہی کامیاب، توانا، صحت مند ہو جتنا جوانی میں تھا۔۔۔ نیٹ فلکس ایسی نئے دور کی ضروریات کو سمجھے اور اس کے ارد گرد جو ایک دو دوست اور سیکرٹری اس کے مداح ہیں، ان سے جان چھڑا کر پھر سے آگے بڑھے۔۔۔بظاہر تو یہ خواہش مناسب لگتی ہے لیکن تصور کیجیے کہ یہی خواہش اس کی زندگی کے لیے طعنہ بن چکی ہو، حالات سازگار نہ ہوں اور ایک ساٹھ سالہ بوڑھا یہ سب کرنے کے قابل نہ رہا ہو تو بیگم کو صبر کرنا چاہیے اس کے ساتھ اچھا وقت بیتانا چاہیے یا پھر ۔۔۔
جس بات نے مجھے بہت تکلیف دی اور دکھی بھی کیا وہ بھی سنیتا کی اس خواہش سے جڑی ہے کہ اس کا پسندیدہ اداکار ہالی ووڈ کا سلوسٹر سٹالون
ہے ( جس نے ریمبو اور راکی کے مشہور زمانہ کردار نبھائے تھے) اور گووندابیگم کی خواہش کے تحت ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیگم اسے کہتی ہے کہ تم اگلے جنم بھی ویسے نہیں بن سکتے۔ کیا ازدواجی زندگی میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ویسا دیکھیں یا ویسا بننے کے چکر میں اپنی زندگی کو اجیرن کرلیں جیسا ہمارا جیون ساتھی دیکھناچاہتا ہے؟؟؟ ہمارا معاشرہ رنگ گورا کرنے والی کریموں، آرمی چیف ایسے پروٹوکول، لش پش گاڑیوں اور بڑے بنگلوں کے خوابوں سے کب نکلنا چاہے گا اور حقیقی زندگی کی جانب لوٹے گا؟؟؟
مجھے یقین ہے کہ گووندا کی ساتھ سنیتا نے اس کی شہرت، دولت اور عزت دیکھ کر شادی کی ہوگی۔ اب جب کہ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ رخصت ہورہا ہے تو وہ فکر مند ہے اور ماضی کے کامیاب ترین اداکار کے حوالے سے اس کے بیانات اور انٹرویو اس جانب سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ ہمیں شادی یا زندگی کے ہم سفر کے لیے کچھ اور معیارات طے کرنے چاہیں اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وقت کے ساتھ آپ کی خوبصورت بیوی یا شوہر پہلے جیسا خوبصورت اور توانا نہ رہے، اس کی دولت و شہرت کم ہوجائے یا کوئی ایسا نیا دور آجائے جس کی ٹیکنالوجی ہی آپ کی مہارت کو رخصت کردے۔۔۔ کیا اس وقت بھی آپ اسے اسی محبت اور عزت کا حق دار سمجھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اگر ہاں! تو یقینا آپ ایک اچھی زندگی کی جانب رواں دواں ہیں اور اگر نہیں۔۔۔تو ابھی سے اپنی راہ کا تعین کرلیجیے، نہ خود اپنی زندگی کو عذابناک بنائیے اور نہ ہی جیون ساتھی کی۔۔۔۔!ؔ
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
