اک جیون کو بِیتانے کے لیے کتنے جیون سوچنا ہوگا؟؟؟

گوندا کی بیگم سنیتا آہوجا کے ایک انٹرویو (ٹائمز انڈیا) نے چونکا دیا۔۔۔یقین کیجیے، میں کئی باتوں پر حیران ہوا۔۔۔اس بات پر ازسرِ نو غور کیا کہ آخر یہ زندگی، جو لڑکپن میں زندگی کا بوجھ اٹھانے سے بوڑھاپے تک والدین، بہن بھائی اور پھر بچوں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے صرف ہوجاتی ہے، اور ہم خود سے کہیں دور تنہا اور زمانے اور ذمہ داریوں کے بوجھ تل گم ہوجاتے ہیں، کیا پھر بھی اس میں کسی مقام تک پہنچ پاتے ہیں؟؟؟ کوئی عزت کما پاتے ہیں؟؟؟ اور اگر پا بھی لیں تو اس مقام پر دنیا کی واہ واہ، کمال ہے، کیا بات ہے کے باوجود ہمیں گھر میں چین سکون مل پاتا ہے ؟؟؟
گووندا جس نے بالی ووڈ پر دو سے تین دہائیوں تک راج کیا اور دولت و شہرت کا استعارہ رہا ہے۔ اس کی بیگم چاہتی ہے کہ وہ آج بھی اتنا ہی کامیاب، توانا، صحت مند ہو جتنا جوانی میں تھا۔۔۔ نیٹ فلکس ایسی نئے دور کی ضروریات کو سمجھے اور اس کے ارد گرد جو ایک دو دوست اور سیکرٹری اس کے مداح ہیں، ان سے جان چھڑا کر پھر سے آگے بڑھے۔۔۔بظاہر تو یہ خواہش مناسب لگتی ہے لیکن تصور کیجیے کہ یہی خواہش اس کی زندگی کے لیے طعنہ بن چکی ہو، حالات سازگار نہ ہوں اور ایک ساٹھ سالہ بوڑھا یہ سب کرنے کے قابل نہ رہا ہو تو بیگم کو صبر کرنا چاہیے اس کے ساتھ اچھا وقت بیتانا چاہیے یا پھر ۔۔۔
جس بات نے مجھے بہت تکلیف دی اور دکھی بھی کیا وہ بھی سنیتا کی اس خواہش سے جڑی ہے کہ اس کا پسندیدہ اداکار ہالی ووڈ کا سلوسٹر سٹالون
ہے ( جس نے ریمبو اور راکی کے مشہور زمانہ کردار نبھائے تھے) اور گووندابیگم کی خواہش کے تحت ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیگم اسے کہتی ہے کہ تم اگلے جنم بھی ویسے نہیں بن سکتے۔ کیا ازدواجی زندگی میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ویسا دیکھیں یا ویسا بننے کے چکر میں اپنی زندگی کو اجیرن کرلیں جیسا ہمارا جیون ساتھی دیکھناچاہتا ہے؟؟؟ ہمارا معاشرہ رنگ گورا کرنے والی کریموں، آرمی چیف ایسے پروٹوکول، لش پش گاڑیوں اور بڑے بنگلوں کے خوابوں سے کب نکلنا چاہے گا اور حقیقی زندگی کی جانب لوٹے گا؟؟؟
مجھے یقین ہے کہ گووندا کی ساتھ سنیتا نے اس کی شہرت، دولت اور عزت دیکھ کر شادی کی ہوگی۔ اب جب کہ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ رخصت ہورہا ہے تو وہ فکر مند ہے اور ماضی کے کامیاب ترین اداکار کے حوالے سے اس کے بیانات اور انٹرویو اس جانب سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ ہمیں شادی یا زندگی کے ہم سفر کے لیے کچھ اور معیارات طے کرنے چاہیں اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وقت کے ساتھ آپ کی خوبصورت بیوی یا شوہر پہلے جیسا خوبصورت اور توانا نہ رہے، اس کی دولت و شہرت کم ہوجائے یا کوئی ایسا نیا دور آجائے جس کی ٹیکنالوجی ہی آپ کی مہارت کو رخصت کردے۔۔۔ کیا اس وقت بھی آپ اسے اسی محبت اور عزت کا حق دار سمجھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اگر ہاں! تو یقینا آپ ایک اچھی زندگی کی جانب رواں دواں ہیں اور اگر نہیں۔۔۔تو ابھی سے اپنی راہ کا تعین کرلیجیے، نہ خود اپنی زندگی کو عذابناک بنائیے اور نہ ہی جیون ساتھی کی۔۔۔۔!ؔ

ڈاکٹر محمد خرم یاسین

May be an image of ‎2 people and ‎text that says '‎אחסס‎'‎‎

 
گوندا کی بیگم سنیتا آہوجا کے ایک انٹرویو (ٹائمز انڈیا) نے چونکا دیا۔۔۔یقین کیجیے، میں کئی باتوں پر حیران ہوا۔۔۔اس بات پر ازسرِ نو غور کیا کہ آخر یہ زندگی، جو لڑکپن میں زندگی کا بوجھ اٹھانے سے بوڑھاپے تک والدین، بہن بھائی اور پھر بچوں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے صرف ہوجاتی ہے، اور ہم خود سے کہیں دور تنہا اور زمانے اور ذمہ داریوں کے بوجھ تل گم ہوجاتے ہیں، کیا پھر بھی اس میں کسی مقام تک پہنچ پاتے ہیں؟؟؟ کوئی عزت کما پاتے ہیں؟؟؟ اور اگر پا بھی لیں تو اس مقام پر دنیا کی واہ واہ، کمال ہے، کیا بات ہے کے باوجود ہمیں گھر میں چین سکون مل پاتا ہے ؟؟؟ گووندا جس نے بالی ووڈ پر دو سے تین دہائیوں تک راج کیا اور دولت و شہرت کا استعارہ رہا ہے۔ اس کی بیگم چاہتی ہے کہ وہ آج بھی اتنا ہی کامیاب، توانا، صحت مند ہو جتنا جوانی میں تھا۔۔۔ نیٹ فلکس ایسی نئے دور کی ضروریات کو سمجھے اور اس کے ارد گرد جو ایک دو دوست اور سیکرٹری اس کے مداح ہیں، ان سے جان چھڑا کر پھر سے آگے بڑھے۔۔۔بظاہر تو یہ خواہش مناسب لگتی ہے لیکن تصور کیجیے کہ یہی خواہش اس کی زندگی کے لیے طعنہ بن چکی ہو، حالات سازگار نہ ہوں اور ایک ساٹھ سالہ بوڑھا یہ سب کرنے کے قابل نہ رہا ہو تو بیگم کو صبر کرنا چاہیے اس کے ساتھ اچھا وقت بیتانا چاہیے یا پھر ۔۔۔جس بات نے مجھے بہت تکلیف دی اور دکھی بھی کیا وہ بھی سنیتا کی اس خواہش سے جڑی ہے کہ اس کا پسندیدہ اداکار ہالی ووڈ کا سلوسٹر سٹالون
ہے ( جس نے ریمبو اور راکی کے مشہور زمانہ کردار نبھائے تھے) اور گووندابیگم کی خواہش کے تحت ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیگم اسے کہتی ہے کہ تم اگلے جنم بھی ویسے نہیں بن سکتے۔ کیا ازدواجی زندگی میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ویسا دیکھیں یا ویسا بننے کے چکر میں اپنی زندگی کو اجیرن کرلیں جیسا ہمارا جیون ساتھی دیکھناچاہتا ہے؟؟؟ ہمارا معاشرہ رنگ گورا کرنے والی کریموں، آرمی چیف ایسے پروٹوکول، لش پش گاڑیوں اور بڑے بنگلوں کے خوابوں سے کب نکلنا چاہے گا اور حقیقی زندگی کی جانب لوٹے گا؟؟؟
مجھے یقین ہے کہ گووندا کی ساتھ سنیتا نے اس کی شہرت، دولت اور عزت دیکھ کر شادی کی ہوگی۔ اب جب کہ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ رخصت ہورہا ہے تو وہ فکر مند ہے اور ماضی کے کامیاب ترین اداکار کے حوالے سے اس کے بیانات اور انٹرویو اس جانب سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ ہمیں شادی یا زندگی کے ہم سفر کے لیے کچھ اور معیارات طے کرنے چاہیں اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وقت کے ساتھ آپ کی خوبصورت بیوی یا شوہر پہلے جیسا خوبصورت اور توانا نہ رہے، اس کی دولت و شہرت کم ہوجائے یا کوئی ایسا نیا دور آجائے جس کی ٹیکنالوجی ہی آپ کی مہارت کو رخصت کردے۔۔۔ کیا اس وقت بھی آپ اسے اسی محبت اور عزت کا حق دار سمجھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اگر ہاں! تو یقینا آپ ایک اچھی زندگی کی جانب رواں دواں ہیں اور اگر نہیں۔۔۔تو ابھی سے اپنی راہ کا تعین کرلیجیے، نہ خود اپنی زندگی کو عذابناک بنائیے اور نہ ہی جیون ساتھی کی۔۔۔۔!ؔ

ڈاکٹر محمد خرم یاسین

May be an image of ‎2 people and ‎text that says '‎אחסס‎'‎‎'‎אחסס‎'‎‎
میں نے وہ انٹرویو تو نہیں سنا (ان کی سیپریشن کی نیوز وغیرہ کئی ماہ سے گردش کر رہی تھیں)، اور اس طرح کے لوگوں کی باتیں اب حتی الامکان نہ سننے کی کوشش بھی کرتی ہوں، کیونکہ انرجیز بڑی contagious ہوتی ہیں۔۔۔لیکن آپ کی تحریر نے میرے ذہن میں دو اہم نکات اٹھائے ہیں۔پہلا یہ کہ لڑکپن میں زندگی کا بوجھ، جوانی میں اپنے سے جڑے انسانوں کی ذمہ داریوں کا اور بڑھاپے میں صحت اور جو کچھ کر سکتے تھے مگر نہ کر پائے، اس کا بوجھ ۔۔۔اس سب میں خود کو زندگی نامی راہ پر دھکیلتے دھکیلتے کیا ہم واقعی کسی مقام پر پہنچ پاتے ہیں؟ اگر میں اپنا فی الوقت نظریہ بتاؤں تو مجھے لگتا ہے، نہیں! جب تک ہم اپنی کامیابی مشروط رکھیں گے کہ دنیا ہمیں کامیاب، اچھا، مشہور، مطمئن، یا کچھ بھی سمجھے۔ تب تک ہم کسی مقام پر نہیں پہنچیں گے کیو نکہ دنیا ہر راہ پر چلنے والے کو کسی اور راہ پر چلنے کے فائدے بتاتے ہوئے پائی جاتی ہے تاکہ اسے بتا سکے کہ you are not enough! کامیابی چاہے بچپن یا جوانی یا بڑھاپے یا زندگی کے اختتام پہ ناپیں، وہی کامیاب ہے جو قانع ہے اس پر جو اسے ملا اور اس نے اپنی طرف سے کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بس یہی کر سکتے ہیں ہم۔۔۔ کسی مقام پر پہنچے؟ ارے نہیں بھی پہنچے تو بھی یہ پیمانہ کس نے سیٹ کیا کہ کہاں پہنچنا ہے؟ یہ دنیا کی کنڈیشننگ ہے انسان کو ناکافی محسوس کروانے کی اور ہمیشہ زندگی کو آرٹ کی طرح جینے کی بجائے ریس میں لگے رہنے کی۔ کسی دن دنیا آپ کو ہیرو بنا کر پیش کرے گی اور کسی اور دن زیرو۔حالانکہ جہاں آپ پہنچے ہیں یہی آپ کا مقام تھا! باقی پیہم کوشش اورممکنات کے لیے کھلا ذہن رکھنا نہ چھوڑیں مگر کامیابی اور کسی مقام پر پہنچنے کا احساس انسان کی اپنی دنیا پر قناعت میں ہے۔

جہاں تک بات ہے ازدواجی زندگی کی، یا عورت کی ناشکری کی یا اس کے علاوہ بھی دنیا کے کسی بھی رشتے اور تعلق کی۔ ازدواجی زندگی آئیڈیلی تو ایک دوسرے کے کمپلیمنٹری ہونے میں ہے اور دنیا کو درمیان میں انوالو نہیں کرنا چاہیے کہ میرا زوج ایسا ہے، اسی لیے ان کے لیے ایک لباس کی مثال دی گئی ہے جو ایک دوسرے کے عیبوں کو ڈھانپتا ہے۔ یہاں چونکہ بات عورت کی ہو رہی ہے تو، میں عورت ہونے کے باوجود اس بات کی مذمت کرتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ اس نے کیا چاہا۔۔۔چاہنےپر شاید اختیار نہ بھی ہو مگر اس کو یہ باتیں اپنے شوہر کو ہی بتانی چاہئیں اور شوہر بھی جو اوپنلی بات کر رہے ہوتے ہیں کہ مجھے تو ایسی بیوی چاہیے تھی یہ ویسی نہیں یا اب ویسی نہیں رہی تو اس پہ انہیں دنیا کو انوالو کرنے کی بجائے اپنے لائف پارٹنر سے ٹیبل ٹاک کرنی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں کیسے درمیان میں پہنچ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کچھ انسانوں کی کوئی کپیسٹی نہیں بھی ہوتی چاہے کتنا زور لگا لیں، یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ کون کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں، بعض چیزیں کسی کے پاس خود موجود نہیں ہوتیں وہ آپ کو کیسے دے سکتا ہے!

جہاں تک آپ نے بات کی کہ تعلق کی بنیادیں کس چیز پر قائم ہونی چاہئیں تو یہ ازدواجی تعلق کے سوا بھی دنیا کے ہر تعلق کی بابت درست ہے کہ آپ جس چیز پر زور دیں گے اپنی شخصیت میں، اسی کے چاہنے اور ماننے والے آپ کے اردگرد الائن ہوں گے۔ جن لوگوں کا چوبیس گھنٹے کام ہی لوگوں کو اپنی ظاہری چکاچوند سے متاثر کیے رکھنا ہے، ان کو تو اکثر خود بھی اپنی روح یا ذہن کی طرف دیکھنے کی فرصت کم ہی ملتی ہے تو کوئی اور ان کے اندر کے پاتال میں جھانک کر اس کے ساتھ الائن کیسے ہوگا؟ انسان کو سب سمجھ آ رہی ہوتی ہے کسی حد تک کہ دوسرا انسان اس تعلق میں کیوں ہے مگر کام چل رہا ہوتا ہے تو چلائے جاتے ہیں اور جہاں وہ چیز ڈھل گئی وہاں دوسرا انسان ایسا ری ایکشن اس لیے دے رہا ہوتا ہے کیو نکہ وہ انسان شروع سے ایسا ہی تھا مگر آپ نے انتخاب کرتے ہوئے یہ بات اگنور کر دی ہوتی ہے۔

(شاید میں نے آپ کی تحریر سے بھی لمبا تبصرہ کر دیا ہے۔۔۔اصل میں میں کئی کاموں میں الجھی ہوئی تھی اور آپ کا ٹیگ بھی ملا تو ذہن میں آیا کہ بعد میں بھول نہ جاؤں اس پہ لکھنا تو اسی منتشر خیالی میں لکھتے ہوئے چیزوں کو زیادہ concise تو نہ کر پائی مگر امید ہے جو اس موضوع پر میں پہنچانا چاہتی تھی کچھ نہ کچھ ابلاغ ہوگیا ہوگا :) )
 
آخری تدوین:
میں نے وہ انٹرویو تو نہیں سنا (ان کی سیپریشن کی نیوز وغیرہ کئی ماہ سے گردش کر رہی تھیں)، اور اس طرح کے لوگوں کی باتیں اب حتی الامکان نہ سننے کی کوشش بھی کرتی ہوں، کیونکہ انرجیز بڑی contagious ہوتی ہیں۔۔۔لیکن آپ کی تحریر نے میرے ذہن میں دو اہم نکات اٹھائے ہیں۔پہلا یہ کہ لڑکپن میں زندگی کا بوجھ، جوانی میں اپنے سے جڑے انسانوں کی ذمہ داریوں کا اور بڑھاپے میں صحت اور جو کچھ کر سکتے تھے مگر نہ کر پائے، اس کا بوجھ ۔۔۔اس سب میں خود کو زندگی نامی راہ پر دھکیلتے دھکیلتے کیا ہم واقعی کسی مقام پر پہنچ پاتے ہیں؟ اگر میں اپنا فی الوقت نظریہ بتاؤں تو مجھے لگتا ہے، نہیں! جب تک ہم اپنی کامیابی مشروط رکھیں گے کہ دنیا ہمیں کامیاب، اچھا، مشہور، مطمئن، یا کچھ بھی سمجھے۔ تب تک ہم کسی مقام پر نہیں پہنچیں گے کیو نکہ دنیا ہر راہ پر چلنے والے کو کسی اور راہ پر چلنے کے فائدے بتاتے ہوئے پائی جاتی ہے تاکہ اسے بتا سکے کہ you are not enough! کامیابی چاہے بچپن یا جوانی یا بڑھاپے یا زندگی کے اختتام پہ ناپیں، وہی کامیاب ہے جو قانع ہے اس پر جو اسے ملا اور اس نے اپنی طرف سے کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بس یہی کر سکتے ہیں ہم۔۔۔ کسی مقام پر پہنچے؟ ارے نہیں بھی پہنچے تو بھی یہ پیمانہ کس نے سیٹ کیا کہ کہاں پہنچنا ہے؟ یہ دنیا کی کنڈیشننگ ہے انسان کو ناکافی محسوس کروانے کی اور ہمیشہ زندگی کو آرٹ کی طرح جینے کی بجائے ریس میں لگے رہنے کی۔ کسی دن دنیا آپ کو ہیرو بنا کر پیش کرے گی اور کسی اور دن زیرو۔حالانکہ جہاں آپ پہنچے ہیں یہی آپ کا مقام تھا! باقی پیہم کوشش اورممکنات کے لیے کھلا ذہن رکھنا نہ چھوڑیں مگر کامیابی اور کسی مقام پر پہنچنے کا احساس انسان کی اپنی دنیا پر قناعت میں ہے۔

جہاں تک بات ہے ازدواجی زندگی کی، یا عورت کی ناشکری کی یا اس کے علاوہ بھی دنیا کے کسی بھی رشتے اور تعلق کی۔ ازدواجی زندگی آئیڈیلی تو ایک دوسرے کے کمپلیمنٹری ہونے میں ہے اور دنیا کو درمیان میں انوالو نہیں کرنا چاہیے کہ میرا زوج ایسا ہے، اسی لیے ان کے لیے ایک لباس کی مثال دی گئی ہے جو ایک دوسرے کے عیبوں کو ڈھانپتا ہے۔ یہاں چونکہ بات عورت کی ہو رہی ہے تو، میں عورت ہونے کے باوجود اس بات کی مذمت کرتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ اس نے کیا چاہا۔۔۔چاہنےپر شاید اختیار نہ بھی ہو مگر اس کو یہ باتیں اپنے شوہر کو ہی بتانی چاہئیں اور شوہر بھی جو اوپنلی بات کر رہے ہوتے ہیں کہ مجھے تو ایسی بیوی چاہیے تھی یہ ویسی نہیں یا اب ویسی نہیں رہی تو اس پہ انہیں دنیا کو انوالو کرنے کی بجائے اپنے لائف پارٹنر سے ٹیبل ٹاک کرنی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں کیسے درمیان میں پہنچ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کچھ انسانوں کی کوئی کپیسٹی نہیں بھی ہوتی چاہے کتنا زور لگا لیں، یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ کون کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں، بعض چیزیں کسی کے پاس خود موجود نہیں ہوتیں وہ آپ کو کیسے دے سکتا ہے!

جہاں تک آپ نے بات کی کہ تعلق کی بنیادیں کس چیز پر قائم ہونی چاہئیں تو یہ ازدواجی تعلق کے سوا بھی دنیا کے ہر تعلق کی بابت درست ہے کہ آپ جس چیز پر زور دیں گے اپنی شخصیت میں، اسی کے چاہنے اور ماننے والے آپ کے اردگرد الائن ہوں گے۔ جن لوگوں کا چوبیس گھنٹے کام ہی لوگوں کو اپنی ظاہری چکاچوند سے متاثر کیے رکھنا ہے، ان کو تو اکثر خود بھی اپنی روح یا ذہن کی طرف دیکھنے کی فرصت کم ہی ملتی ہے تو کوئی اور ان کے اندر کے پاتال میں جھانک کر اس کے ساتھ الائن کیسے ہوگا؟ انسان کو سب سمجھ آ رہی ہوتی ہے کسی حد تک کہ دوسرا انسان اس تعلق میں کیوں ہے مگر کام چل رہا ہوتا ہے تو چلائے جاتے ہیں اور جہاں وہ چیز ڈھل گئی وہاں دوسرا انسان ایسا ری ایکشن اس لیے دے رہا ہوتا ہے کیو نکہ وہ انسان شروع سے ایسا ہی تھا مگر آپ نے انتخاب کرتے ہوئے یہ بات اگنور کر دی ہوتی ہے۔

(شاید میں نے آپ کی تحریر سے بھی لمبا تبصرہ کر دیا ہے۔۔۔اصل میں میں کئی کاموں میں الجھی ہوئی تھی اور آپ کا ٹیگ بھی ملا تو ذہن میں آیا کہ بعد میں بھول نہ جاؤں اس پہ لکھنا تو اسی منتشر خیالی میں لکھتے ہوئے چیزوں کو زیادہ concise تو نہ کر پائی مگر امید ہے جو اس موضوع پر میں پہنچانا چاہتی تھی کچھ نہ کچھ ابلاغ ہوگیا ہوگا :) )
آپ کی تمام باتیں درست ہیں، جزاک اللہ خیرا۔ بس ہمارے معیارات جو ہم مقرر کرچکے ہیں، یا دنیا مقرر کرچکی ہے یا پھر اس خطے کا کلچر بن چکے ہیں، ان پر پورا اترنا، یا ان سے اترنا، دونوں ہی کئی قسم کے ابہام اور مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمیں ان سے حتی الامکان بچنا اور متوازن رہنا چاہیے۔ آپ کا تبصرہ خوبصورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔ جزاک اللہ خیرا۔ باقی یہ کہ ضروری نہیں سب کا جیون ساتھی اس کے ساتھ اتنا ہی خوش اور مطمئن ہو جتنا اسے ہونا چاہیے۔ ۔۔ ایسی ہی بہت سی وجوہ انسانوں کے درمیان دوری اور تناؤ کا سبب بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین
 
Top