اکیلے آدمی کی ریاست ۔ دیوار پہ دستک۔ منصور +فاق

منصور آفاق

محفلین
اکیلے آدمی کی ریاست...منصور آفاق
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

119083_s.jpg

میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی لوگ کس قسم کی ریاست یا معاشرت میں خوشی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں اور وہاں کیسی طرزِ حکمرانی ہونی چاہئے تو مجھے اسپین کے مسلمان فلسفی ابنِ باجہ یاد آگئے۔انہوں نے ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا تھاجس میں کسی قاضی یا عدالت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اُس کے باشندوں میں جرائم اور فریب کا تصور بھی نہیں تھا حتیٰ کہ وہاں معالج بھی غیر ضروری تھے کیونکہ لوگ ایسی خوراک استعمال کرتے تھے کہ بیماری کا احتمال ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ دل چاہتا ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی ایسا معاشرہ وجود میں آ جائے۔آئیے سوچتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسی ریاست میں کیسے بن سکتا ہے۔ابن باجہ کے خیال میں یہ معاشرہ اکیلے آدمی کی ریاست سے جنم لے سکتا ہے یعنی ہر شخص اپنی ذات کو اپنی ریاست بنالے تو وہ کسی بھی ناکام مملکت کا کامیاب شہری بن سکتا ہے۔انسانی دماغ کی پہلی ضرورت روحانی اور مادی زندگی میں خوشی کا حصول ہے اور یہی چیز اسے باقی جانداروں سے مختلف کرتی ہے۔اس خوشی کی تگ و دو میں ہونے والے انسانی اعمال کے نتائج سے اچھائی اور برائی جنم لیتی ہے۔ اگر فرد اپنی خوشی کی حدود متعین کر لے اور یہ طے کر لے کہ اس کے نزدیک خوشی کیا ہے تو اس کے مقاصدِحیات بھی طے پاجاتے ہیں۔ایسا فرد ایک خالص اور مکمل فرد ہوگااوریہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب فرد اپنی تنہائی اور اپنے اکیلے پن کی اہمیت کا ادراک کرلے۔ایسے افراد پر مشتمل مملکت بے عیب مملکت ہوگی۔بے شک یہ طرزِ زندگی بظاہر اس فلسفے کی نفی کررہی ہے کہ فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں مگرحقیقت میں ایسا نہیں جو فرد اپنی خوشی کی حد کا تعین کرلیتا ہے وہ باقی سب کچھ دوسرے کیلئے چھوڑ دیتا ہے اور اصل معاشرت دوسرے کیلئے قربانی دینے کا نام ہے۔
پاکستان میں ایسے مکمل فردکیسے جنم لے سکتے ہیں۔یہ سب سے مشکل سوال ہے۔کیسے ممکن ہے کہ کوئی دوسرے کیلئے راستہ چھوڑ دے۔کوئی شخص دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرے۔دوسرے کو محکوم بنانے کی کوشش نہ کرے۔دوسرے پر اثر انداز نہ ہو۔کوئی دوسرے کے نوالے نہ شمار کرے۔میرے خیال میں اس کیلئے سوائے ایک لیڈر کے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں جو خود ایسا ہو یعنی اس تبدیلی کیلئے صرف ایک آدمی درکار ہے ایک اکیلا آدمی ، اپنی ریاست رکھنے والا آدمی ۔
پاکستان میں ایسا آدمی کہاں سے آئے گا۔کیا نواز شریف ایسے ہیں،کیا عمران خان ایسا ہے، کیا ڈاکٹر طاہر القادری ایسے ہیں اگر نہیں ہیں تو پھر کیا کیا جائے ۔میرے خیال میں اس کے لئے مایوس ہونے کے بجائے اس عمل کو شروع کیا جائے جو آدمی بناتا ہے۔ ایسے آدمی جو لیڈر بنتے ہیں اور پھر وہ لیڈر قوم بناتے ہیں ۔وہ عمل کیا ہے۔میرے خیال میں وہ عمل بہت چھوٹے پیمانے پر ہونے والا سیاسی عمل ہے جسے بلدیاتی سطح کا سیاسی عمل کہا جا سکتا ہے۔اسی عمل سے لیڈر نکلتے ہیں مگر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں ہمیشہ اسی سیاسی عمل کو روکتی رہی ہیں صرف اس لئے کہ کہیں کوئی لیڈر پیدا نہ ہوجائے ۔بلدیاتی انتخابات پانچ سال کے بعد بھی نہیں ہونے دیتیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بلدیاتی انتخابات ہر سال ہوتے ہیں۔یہاں برطانیہ میں ہرسال نئے کونسلر بنتے ہیں۔ کچھ چلے جاتے ہیں۔اور کچھ دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں پھر انہی کونسلروں میں سے ہر سال کچھ لوگ ممبر آف پارلیمینٹ کا امیدواربننے کیلئے انٹرویو دیتے ہیں جس کا دورانیہ تین روز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان انٹرویوز میں جو لوگ پاس ہوجاتے ہیں سیاسی پارٹیاں صرف انہی کو امیدوار بناسکتی ہیں۔یوں پھر ممبر آف پارلیمینٹ بنتے ہیں اور پھر وہی کونسلر وزیراعظم کے عہدے تک پہنچتے ہیں۔ سو لیڈر بنانے کی جو نرسری ہے ہم نے اسے بند کیا ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں باقاعدہ حکم جاری کیا ہے حتی کہ یہاں تک کہا ہے کہ اگر حکومت انتخابات کی تاریخ دینے میں ناکام رہی تو پھر سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ دے گی مگر الیکشن کمیشن نے معذرت کرلی ہے کہ اس سلسلے میں ابھی تک قانون سازی نہیں ہوئی ۔کیسی قانون سازی بھئی۔ قانون سازی تو موجود ہے جس کے تحت ماضی میں بلدیاتی انتخابات ہوتے آرہے ہیں اب اگر صوبوں نے یا وفاق نے اس سلسلے میں کوئی نئی قانون سازی کرنی ہے اور ابھی نہیں کی تو الیکشن کمیشن کا اس بات سے کیا تعلق ہے الیکشن کمیشن نے اسی قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں جو موجود ہے۔الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پر صرف ایک صورت میں معذرت کر سکتا تھا کہ جب قومی اسمبلی یہ قانون بناچکی ہوتی کہ اب پرانے قوانین کے تحت انتخابات نہیں ہوسکتے مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔میرے لئے یہ بات بہت تشویشناک ہے کہ جب سپریم کورٹ صدراتی انتخابات وقت سے پہلے کرانے کا حکم دیتی ہے تو الیکشن کمیشن اس پر فوراً عملدرآمد کرتا ہے،چاہے اس کے بعد فخرو بھائی مستعفی ہی کیوں نہیں ہوجاتے مگر جب سپریم بلدیاتی انتخابات کا حکم دیتا ہے تو الیکشن کمیشن بے بنیاد وجہ پیش کرکے معذرت کر لیتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ معذرت سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار ہے۔ ایک ریاستی ادارے یعنی الیکشن کمیشن کی معذرت ایک شخص (عمران خان) کی غلطی سے کہیں بڑی ہے اس لئے الیکشن کمیشن کے خلاف اس توہین کا فوراً نوٹس لیا جانا چاہئے تاکہ جمہوریت کی نرسری پھر سے آباد ہوسکے ۔اور ہاں جب سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کا حکم دیا تھاتوہمارے پنجاب کے وزیر اعلی نے فرمایا تھا کہ اگر انہوں نے بلدیاتی انتخابات کرائے تو وہ غیر جماعتی بنیادوں پر کرائیں گے۔کیا کہوں،جنرل ضیاء الحق زندہ باد۔ اس کے سوا کہہ بھی کیا سکتا ہوں ۔ یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے جس ملک میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ِ کرام کی ایسی ضیاء آفرین فکر ہو وہاں اکیلے آدمی کی ریاست کیسے وجودمیں آسکتی ہے۔
 
Top