اپنے گھر پر نظر نہیں آتے۔۔۔ بغرض تبصرہ و اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
حسین کے تخلص کے ساتھ ہماری ایک غزل آپ کے ملاحظے ، تبصرے اور اصلاح کے لیے پیش ہے

اپنے گھر پر نظر نہیں آتے
آپ اکثر نظر نہیں آتے

گھر سے باہر جو آپ لگتے ہیں
گھر کے اندر نظر نہیں آتے

دیکھ لیتے ہیں عشق کی راہیں
ہم کو پتھر نظر نہیں آتے

حسن والے نظر تو آتے ہیں
تم سے بہتر نظر نہیں آتے

وہ بھی رستے ہیں ایک منزل کے
جو برابر نظر نہیں آتے

ایسا ٹھہرا ہے آنکھ میں سورج
ماہ و اختر نظر نہیں آتے

ہم حسیں اُن کو سنگ لگتے ہیں
جن کو گوہر نظر نہیں آتے

(محض دلچسپی کے لیے فیس بک کے کمنٹس حاضرہیں: بزرگ شاعر ہری کشن رازدان کہتے ہیں: اچھی غزل ہے، ایک شعر میں یوں کہتا: جب بھی دِکھتی ہیں عشق کی راہیں ۔۔۔ کہیں پتھر نظر نہیں آتے ۔۔۔ سید جاوید بخاری نے فرمایا: عشق جس دن سے ہو گیا ان سے ۔۔۔ ہم کہیں پر نظر نہیں آتے۔۔۔ ۔کمنٹس اور بھی ہیں جن کے لیے ربط ملاحظہ کرسکتے ہیں بشرط فرصت :
https://www.facebook.com/photo.php?...164.1073741829.100006483286911&type=1&theater
)
اساتذہ سخن کے لیے ۔۔۔
الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
 

نایاب

لائبریرین
گھر سے باہر جو آپ لگتے ہیں
گھر کے اندر نظر نہیں آتے
بہت خوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ رازداں صاحب کی اصلاح بھی پسند نہیں آئی۔ اس سے بہتر تو یوں ہوتا۔
بس نظر میں ہیں عشق÷ پیار کے رستے
حسیں تخلص بھی پسند نہیں آیا۔
 
Top