اٹھائو آفتابِ رخ سے پردہ

رہ وفا

محفلین
السلام علیکم دوستو
ایک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں امید ہے پسند آئے گی

حدِ جاں سے گزرنا چاہتی ہیں
امنگیں رقص کرنا چاہتی ہیں​

تری دہلیز کی چوکھٹ پہ آنکھیں
دیے کی طرح جلنا چاہتی ہیں

تری یادوں کے صحرا میں یہ آنکھیں
گھٹائوں سی برسنا چاہتی ہیں​

اٹھائو آفتابِ رخ سے پردہ
مری صبحیں اترنا چاہتی ہیں​

کبھی گزرو مرے دل کی گلی سے
کہ یہ راہیں سنورنا چاہتی ہیں

جو گزرے ہیں تری یادوں میں لمحے
وہیں سانسیں ٹھہرنا چاہتی ہیں

چرا کر رنگ تیرے خال و خد سے
فضائیں خود نکھرنا چاہتی ہیں​

مری تنہائیاں بھی سر پھری ہیں
جدائی سے مکرنا چاہتی ہیں​

چلو سجاد اس کو ڈھونڈتے ہیں
کہ امیدیں بکھرنا چاہتی ہیں​
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
السلام علیکم دوستو
ایک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں امید ہے پسند آئے گی

حدِ جاں سے گزرنا چاہتی ہیں
امنگیں رقص کرنا چاہتی ہیں​

تری دہلیز کی چوکھٹ پہ آنکھیں
دیے کی طرح جلنا چاہتی ہیں​

اٹھائو آفتابِ رخ سے پردہ
مری صبحیں اترنا چاہتی ہیں​

کبھی گزرو مرے دل کی گلی سے
کہ یہ راہیں سنورنا چاہتی ہیں​

مری تنہائیاں بھی سر پھری ہیں
جدائی سے مکرنا چاہتی ہیں​

چلو سجاد اس کو ڈھونڈتے ہیں
کہ امیدیں بکھرنا چاہتی ہیں​
جلنا کے قافیے پر کچھ کلام ہو سکتا ہے۔ البتہ غزل اچھی لگی ۔
سجاد صاحب۔ بہت خوب۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف صاحب بہت ذرہ نوازی
اس کی جگہ اگر ایسا کر دیا جائے
تری یادوں کے صحرا میں یہ آنکھیں
گھٹائوں سی برسنا چاہتی ہیں
اس برسنا میں بھی وہی بات ہے جوجلنا میں ہے۔۔۔۔ قافیہ میں ر ضروری لگے گا جیسے ٹھہرنا آپ نے استعمال کیا۔۔۔
 
Top