آپ پر پڑوسی کا حق

سید عمران

محفلین
معاشرتی زندگی گزارنے کے لیے انسان کو اپنے گھر والوں کے بعد سب سے زیادہ واسطہ جن سے پڑتا ہے وہ اس کے پڑوسی ہیں۔ ایک انسان کے کردار اور اخلاق کے بارے میں جتنا اس کے پڑوسی جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔ اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلى الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں اپنی نیکوکاری و بدکاری کس طرح معلوم کروں؟ آپ نے فرمایا اگر تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے اچھا کیا تو تمہارا کام اچھا ہے، اور اگر وہ یہ کہیں کہ تم نے برا کیا ہے تو تمہارا وہ کام برا ہے ؎

برا کہے جسے عالَم اسے برا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

اسلام نے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کے جو اصول و آداب بیان فرمائے ہیں دنیا ان کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے جبریل لگاتارپڑوسی کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ اب وہ اسے وراثت میں بھی حصے دار قرار دے دیں گے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی ان تعلیمات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عمل کیا اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیاہے؟اگر وہ تم سے مدد مانگے تواس کی مدد کرو،اگر وہ تم سے قرض مانگے تواس کو قرض دو اوراگر وہ بیمارپڑے تواس کی عیادت کرو، اپنی عمارت زیادہ اونچی نہ بناؤ کہ اس کو ہوا پہنچے میں رکاوٹ ہو مگرپڑوسی کی اجازت سے۔ تم میوہ خریدو توکچھ اس کو بھی ہدیہ کرو،اگر ایسانہ کرسکو تو پوشیدہ طور پر گھر لے جاؤ اور تمہارا بیٹا میوہ لے کر باہر نہ جائے کہ کہیں اس کے بیٹے کو رنج ہو۔اور اپنی ہانڈی کی خوشبو سے ا سے تکلیف نہ دو مگر یہ کہ کچھ اس کو بھی پہنچادو۔

زندگی سے رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہوا اور پانی کے بعد خوراک انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، یہ دن میں دو سے تین بار اپنے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہے۔ لیکن اپنی پیٹ پوجا کے چکر میں کہیں وہ اپنے غریب پڑوسی کی بھوک نہ بھول جائے، خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور غریب پڑوسی مارے بھوک کے رات آنکھوں میں کاٹ دے۔اس کے لیےحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم شوربہ بناؤ تو اس میں پانی زیادہ کردو ،پھر اپنے پڑوسیوں کے اہل خانہ کو دیکھو اور ان کو اس میں سے کچھ پہنچا دو۔

قرآن پاک کی سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے پڑوسی کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں، رشتے دار پڑوسی، غیر رشتے دار پڑوسی اور پہلو کا ساتھی اور ان سب سے اچھا سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور پہلو کا ساتھی کہہ کر تو اس دائرہ کو اور وسعت دے دی، کیوں کہ پہلو کا ساتھی سے وہ لوگ مراد ہیں جن کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو، چاہے محلے کے لوگ ہوں یا دفتر فیکٹری میں کام کرنے والے افراد، مسجد کے ساتھی ہوں یا ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشن و بس کے ساتھی یا تعلیمی اداروں میں ساتھ پڑھنے والے دوست۔ اور ہمسائیگی کے دائرے کی وسعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما رہے ہیں کہ ہمسائے کے حق کا دائرہ دائیں بائیں آگے پیچھے چالیس گھروں تک وسیع ہے۔

آج پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا تو درکنار انہیں باقاعدہ ایذا پہنچائی جاتی ہے، کچھ تو دانستہ اور کچھ غیر دانستہ مثلاً اونچی آوازمیں گانے سننا یا ڈرامے دیکھنا ، شور شرابا کرنا، مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں سے حمد، نعت، تلاوت، بیانات اس طور پر نشر کرنا کہ گھروں میں تیز آواز کے شور سے سب لوگ اذیت میں مبتلا ہوجائیں۔اسی طرح گلی میں کچرا پھینکنا یا پانی بہانا، شامیانہ لگا کر راستہ روک دینا یا مکان تعمیر کرتے وقت ریتی بجری سڑک پر پھیلا کر اذیت پہنچانا۔

ہمارے یہاں رہائشی علاقوں میں کمرشل کام بھی ہوتا ہے جیسے مکینک کی دوکانیں، کھانوں کی دوکانیں، کارپینٹر کی دوکان وغیرہ۔ اگر گھر کسی دوکان کے اوپر یا برابر میں ہے تو ایسی دھوئیں والی چیزیں بنانا جس سے پڑوسیوں کے گھروں میں دھواں جائے یا ایسا شور شرابے والا کام کرنا جس کے شور سے پڑوسیوں کے دل سے مسلسل بددعایں نکلیں اور سمجھانے پر طنز و تشنیع کرنا، پھبتی کسنا،لڑائی کرنا، گالیاں بکنا، ہاتھا پائی کرنا یہ سارے کام ایمان تباہ اور آخرت برباد کرنے کے زمرے میں آتے ہیں، کیوں کہ پڑوسیوں سے اچھا یا برا سلوک صرف گناہ ثواب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایمان کو اچھا یا برا بنانے کا سبب بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جواللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ پڑوسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے اور اسے تکلیف نہ دے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کا محبوب بنے تو اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کرے۔ مزید فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا پڑوسی اس کے شرسے محفوظ نہ ہو۔

جس کو برا پڑوسی مل جائے اس سے پوچھیں کہ اس کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے اور زندگی بھر کا روگ الگ لگ جاتا ہے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برے پڑوسی سے ان الفاظ سے پناہ مانگی ہے کہ اے اللہ میں برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔عربی کا مقولہ ہے الجار ثم الدار پہلے پڑوسی دیکھو پھر گھر خریدو۔ اسی طرح کا معاملہ گھر بیچنے کے وقت کا ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’شفعہ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی پہلے پڑوسیوں سے پوچھ لو کہ ہم اپنا گھر بیچنا چاتے ہیں، اگر آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو خرید لیں۔ یہ پڑوسی کا حق اس لیے ہے کہ آپ کی جگہ اس گھر میں کوئی ایسا پڑوسی نہ آجائے جو لوگوں کا جینا حرام کردے۔ اسی لیے مقولہ مشہور ہے کہ گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حقدار ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایسی تربیت فرمائی تھی کہ وہ مسلم تو کیا غیر مسلم پڑوسیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کو حکم دیاکہ بکری ذبح کرو اور یہودی ہمسائے کو بھی دے آنا۔ غلام نے عرض کیا کہ آپ اس یہودی کی وجہ سے ہمیں کیوں تکلیف دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسائیوں کے حقوق میں اس قدر تاکید فرمائی کہ ہمیں یہ گمان گزرنے لگا کہ حضور انہیں وراثت میں حقدار بنادیں گے ۔

ہدیہ دینے میں پہل کرنے کا اصول حضرت عائشہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول میرے دوپڑوسی ہیں تو میں (ہدیہ تحفہ وغیرہ) کس سے شروع کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے شروعات کرو جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو یا جو ہدیہ دینے میں تم سے زیادہ قریب ہو، یعنی جو تمہیں دیگر پڑوسیوں کے مقابلے میں زیادہ ہدیہ دے اس سے پہل کرو۔

پڑوسیوں کے یہ حقوق پہلے آپ کو ادا کرنے کے ہیں۔ پڑوسیوں پر انہیں نافذ کرنے سے پہلے اپنا رویہ ان کے سامنے پیش کریں، ان کی ایذا رسانیوں پر درگزر و برداشت سے کام لیں، وقتاً فوقتاً انہیں تحفے پیش کریں، چاہے سالن کا ایک پیالہ ہی کیوں نہ ہو اور ان کی ہر خوشی، ہر آزمائش پر سب سے آگے کھڑے ہوں۔ ناممکن ہے کہ آپ کی مہربانیوں کی برسات ان کی کثافتوں کو دھونے کا باعث نہ بنے!​
 
آخری تدوین:
Top