آن لائن بمقابلہ آف لائن

رباب واسطی

محفلین
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)

حالیہ سالوں میں فیس بُک نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ اس وقت اس کے دو ارب سرگرم صارف ہیں۔ اگریہ اپنے وژن پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے تو اسے آن لائن اور آف لائن دنیا کے درمیان پُل بننا ہوگا۔ آن لائن کمیونٹی کا اجتماع آغاز ہوسکتا ہے مگردور رس اثرات کے لیے آف لائن دنیا میں جڑیں پکڑنی ہوں گی۔ اگر ایک دن کسی آمر نے فیس بُک پرپابندی لگادی توآن لائن کمیونٹی ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جائے گی۔ کیا وہ پلٹ کراُس آمر کا مقابلہ کرسکے گی؟ کیا وہ کوئی منظم احتجاج منعقد کرسکے گی؟

گوشت پوست کی انسانی برادریاں تخیلاتی آن لائن کمیونٹی سے بہت زیادہ گہرائی اور وزن رکھتی ہیں۔ مستقبل قریب میں بھی آن لائن دنیا آف لائن دنیا پرغالب نہیں آسکتی۔ اگراسرائیل میں میں اپنے گھرپربیمار پڑا ہوں، توکوئی آن لائن دوست کیلیفورنیا سے نیک خواہشات کا اظہار ہی کر سکتا ہے۔ مگر ایک کپ کافی یا سوپ بناکرنہیں پلاسکتا۔

انسان گوشت پوست رکھتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے دوران ٹیکنالوجی ہمیں ہمارے جسموں سے دورکرتی رہی ہے۔ ہم کیاسونگھ رہے ہیں؟ کیا کھارہے ہیں؟ اس پر توجہ دینے کی ہمارے پاس فرصت ہی نہیں رہی۔ ہم اسمارٹ فون اورکمپیوٹر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ہم اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ سائبر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ہمارے گھر کے نیچے گلی میں کیا واقعہ پیش آرہا ہے؟ اس کی ہمیں چنداں فکر نہیں! سوئٹزرلینڈ میں اپنے کزن سے بات کرنا آسان ہے مگر ناشتے پر شوہر سے بات کرنا مشکل ہے۔کیونکہ وہ بھی مجھ پر توجہ دینے کے بجائے مسلسل اسمارٹ فون میں گم ہے۔

ماضی میں لوگ اس قسم کی لاپروائی اور عدم توجہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ قدیم شکاری انسان ہر وقت چوکنے اور سرگرم رہتے تھے۔ جنگلوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ کھمبیاں تلاش کرتے تھے۔ گھاس میں ذرا سی حرکت پر بھی نظر رکھتے تھے کہ کہیں سانپ نہ چھپا بیٹھا ہو۔ آج کے مالدار معاشروں میں ایسی فکروپریشانی ضروری نہیں رہی۔ ہم سپرمارکیٹ کی روشوں میں چلتے پھرتے ٹیکسٹ پیغامات بھیجتے اور وصول کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ منتخب اشیا کی خریداری بھی کرتے رہتے ہیں۔مگر جو کچھ بھی ہم خریدتے ہیں وہ عجلت میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ای میل چیک کرتے ہوئے یا ٹی وی دیکھتے ہوئے ہم کھانے اور اُس کے ذائقے پر بالکل توجہ نہیں دے پاتے۔

مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ فیس بک کے ذریعے ہم اپنے تجربات اور جذبات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارا احساس یا تبصرہ اہمیت اور توجہ حاصل کرتا ہے۔ اپنے اجسام سے اجنبی لوگ اور اپنے ماحول سے کٹتے ہوئے افراد بے مقصدیت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ماہرین عموماً اس تنہائی کو مذہبی اور قومی تعلقات میں گراوٹ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر انسان کا اپنے جسم سے دور ہوناغالباً زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ انسان لاکھوں کروڑوں سال بغیر مذاہب اور اقوام زندہ رہے ہیں، یہ اکیسویں صدی میں بھی اس طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ (یکسر بے بنیاد اور لغو قسم کا جھوٹ ہے۔ انسان ہمیشہ سے مذہبی اور معاشرتی زندگی کے عادی رہے ہیں۔) وہ خوش نہیں رہ سکتے اگر انہیں ان کے جسموں سے دور کردیا جائے۔ اگر آپ اپنے جسم میں گھر کی سی اپنائیت محسوس نہیں کررہے، تواس دنیا کو کبھی بھی آپ اپنے گھر کی طرح محسوس نہیں کرسکتے۔

آن لائن تعلقات پر حدیں مقرر کی جاسکتی ہیں؟ مگر اس طرح مارک زکربرگ کا معاشرتی ٹکراؤسے بچاؤ کا نسخہ ناکام ہوجائے گا۔ مارک زکربرگ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ لوگوں کا جن دلچسپیوں میں اتفاق ہے وہ اُس پر روابط مستحکم کرسکتے ہیں، اور جن معاملات میں اختلافات ہیں اُن پر مکالمہ کرسکتے ہیں۔ تاہم اب بھی سب انسانوں کا ایک دوسرے کو پوری طرح جان لینا بہت مشکل ہے۔ اس میں بہت وقت لگے گا۔ اس کے لیے بالمشافہ روابط کی ضرورت ہوگی۔ مگر یہ ناممکن ہے۔

ہم صرف یہ امید کرسکتے ہیں کہ فیس بُک اپنے کام کا انداز بدلے گا اور زیادہ سے زیادہ آف لائن ٹیکس فرینڈلی پالیسی اختیار کرے گا، اور اس عمل کے دوران دنیا کو متحد بھی کرسکے گا، اور منافع بخش بھی رہے گا۔ تاریخی طورپر کارپوریشنز کبھی بھی سیاسی اور معاشرتی انقلابات کا محرک نہیں بن سکی ہیں۔ انقلاب قربانی مانگتا ہے اور کارپوریشنز اور اُن کے ملازمین قربانی نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابی گرجا گھر بناتے ہیں، سیاسی جماعتیں تشکیل دیتے ہیں، اورفوجیں تیار کرتے ہیں۔ (یہاں ہراری صاحب برطانوی استعماریت، نوآبادیاتی فوج کشی اورکارپوریشنز کے لیے گھڑی گئی جنگوں کوکیسے نظر انداز کرگئے؟) عرب دنیا میں ٹوئٹر اور فیس بُک کے نام نہاد انقلاب نے آن لائن کمیونٹی کا امید افزا کام شروع کیا تھا، مگر جیسے ہی وہ آف لائن دنیا میں ابھرے، مذہبی جنونیوں اورملٹری جنتا نے کمانڈ سنبھال لی۔ (پروفیسر ہراری نے یہاں پھر ناانصافی سے کام لیا ہے، مغربی میڈیا کے جھوٹے پراپیگنڈے کی تکرار کردی ہے۔ حالانکہ اُن پر یہ بالکل واضح ہونا چاہیے کہ مصر میں انقلاب کی آبیاری اخوان المسلمون نے طویل عرصے کی ہے۔ اس انقلاب کے لیے اخوان کی زندگیاں جیلوں میں گزری ہیں۔ جدید مصر کی تاریخ میں اخوان المسلمون مقبول ترین سیاسی اور جمہوری جماعت ہے، جسے مغرب نے فوج کی مدد سے نہ صرف اقتدار سے محروم کیا بلکہ ظلم ودہشت کی خونیں تاریخ لکھی۔رابعہ العدویہ پرعورتوں تک کوٹینکوں تلے کچلا گیا۔ آج بھی منتخب وزیراعظم محمد مرسی سلاخوں کے پیچھے ہیں اورنام نہاد جمہوری دنیا جنرل السیسی کی پشت پناہی میں تمام حدیں پامال کرچکی ہے۔ مصری انقلاب میں سوشل میڈیا کا کرداررابطے کی ایک ڈیوائس سے زیادہ کچھ نہ تھا۔) اگر فیس بُک ایک عالمی انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے توآن لائن اور آف لائن دنیا کے درمیان فاصلے ختم کرے۔ اس وقت آن لائن جائنٹس کا رویہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو Audiovisual جانور سمجھتے ہیں: آنکھوں اور کانوں کے ایسے جوڑے جوانگلیوں سے رابطے میں ہیں اور کریڈٹ کارڈ تک جاتے ہیں۔ اگر انسانوں کو جوڑنا ہے توسمجھنا ہوگا کہ وہ گوشت پوست کا وجود رکھتے ہیں۔

یقینا جب ٹیک جائنٹس کواحساس ہوگا کہ آن لائن ایلگوریتھم کی حدود آڑے آرہی ہیں تو وہ آن لائن اور آف لائن دنیا کے درمیان فاصلہ مٹانے کی تگ ودو تیز کردیں گے۔ گوگل گلاس جیسی ڈیوائسز استعمال کرکے یہ فرق مٹایا جائے گا اور واحد اضافی حقیقت (Augmented Reality) میں ڈھال دیا جائے گا۔ اس کے لیے بائیو میٹرک سینسر اور دماغ وکمپیوٹرکے براہ راست تعامل کی صلاحیت استعمال کی جاسکتی ہے، جو الیکٹرونک مشینوں اور انسانی اجسام میں تفریق ختم کردیں۔ ایک بار جب ٹیکنیکل جائنٹس ہمارے اجسام پرقابو پالیں گے، تو پھر شاید موجودہ طریقوں پر ہی وہ ہماری آنکھوں، ہاتھوں اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال کریں۔ ہم شاید پھر اُن سنہرے دنوں کو یاد کریں کہ جب آن لائن اور آف لائن زندگی علیحدہ ہواکرتی تھی۔
 
Top