آخری صبح

سید عمران

محفلین
دو ہزار سال قبل ایک شہر تھا، خوبصورت اتنا گویا جنت کے باغ کا ٹکڑا زمین پہ رکھ دیا ہو۔ بیس ہزار کی آبادی والے شہر کے ایک طرف سمندر کا کنارہ تھا تو دوسری طرف بہتا دریا، ایک طرف سربفلک سبزے سے ڈھکا خوبصورت پہاڑ تھا اور باقی جانب جنگل اور کھیت کھلیان۔ خوش رنگ، رس بھرے ذائقہ دار پھلوں اور تازہ سبزیوں کی فراوانی تھی۔ خوبصورت گھر، پکی دیواروں پر شوخ چمک دار رنگوں کی بہار۔ گھر کے پچھلے حصہ میں بنے خوبصورت لان۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنائی گئی پختہ سڑکوں کے کنارے بنے فٹ پاتھ جن کے درمیان میں برساتی پانی کی نکاسی کے لیے پتھروں سے بنی چوڑی روش ۔ کچی سڑکیں نہ ہونے کے باعث شہر میں گرد و غبار کا نام و نشان نہ تھا۔ فراہمی آب کے لیے سیسے کے پائپ تھے جن سے ہر گھر میں پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ نکاسی آب کے لیے گھروں کی دیواروں کے ساتھ پختہ نالیاں اور گٹر کا باقاعدہ نظام تھا۔ جابجا بہترین طرز پر بنے بڑے بڑے حماموں میں ماربل کے باتھ ٹب نصب تھے۔ چھوٹے سے شہر میں تیس بیکریاں تھیں، بعض میں کھانے پینے کے لیے میز کرسیوں کا انتظام بھی تھا۔افریقہ اور شام سمیت مختلف ممالک سے لائے گئے غلاموں اور کنیزوں کی بہتات تھی۔ دو ہزار سال قبل اس شہر میں وہ تمام سہولیات موجود تھیں جو آج کے جدید دور میں لوگ استعمال کرتے ہیں۔
جتنا خوبصورت شہر کے باسیوں کا ظاہر تھا اتنا ہی سیاہ ان کا باطن ۔خوبصورت لوگ، حسین مناظر، دولت کی فراوانی، بھرپور صحت اور خوش و خرم زندگی۔ ان نعمتوں نے لوگوں کو لذت پرست بنادیا، ہر طرح کا عیش حاصل کرنا زندگی کا مقصد بن گیا۔عیاشیوں میں لگ کر جائز ناجائز، حلال حرام کسی چیز کی پرواہ نہ رہی۔ سب سے بڑی برائی جو اُن میں پروان چڑھ رہی تھی، وہ بے محابہ حرام کاری تھی۔ شرم و حیا ایسی رخصت ہوئی کہ مرد مرد کے لیے، عورت عورت کے لیے، مرد عورت کے لیے اور عورت مرد کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتے۔ غلاموں اور کنیزوں سے ان کے آقا یہ کام کروا کے پیسے کماتے۔ شہر کے حماموں میں مرد عورت اکٹھے نہانے لگے۔ چھوٹے سے شہر میں جگہ جگہ برائی کے مراکز قائم ہوگئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر دوسرا گھر برائی کا اڈہ بن گیا۔ ان کے نزدیک محنت مزدوری کی بنسبت اس کام سے پیسہ حاصل کرنا زیادہ آسان تھا۔ جانوروں تک سے یہ برا کام کرنے کو باعثِ فخر سمجھتے۔ کارِ شیطانی نے ان کا باطن اس قدر شیطانی بنادیا کہ دیواروں پر ان بدکاریوں کی حیا سوز عریاں تصاویر سرعام بنانے لگے، ایسی تصاویر جنہیں کوئی شریف و نیک دل انسان آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔
رفتہ رفتہ اس شہر کی پہچان شراب، جوا اور بدکاری بن گئی۔ آس پاس کے شہروں سے لوگ ان کاموں کے لیے یہاں کا رخ کرنے لگے، بڑے بڑے تاجر اور شاہی دربار سے وابستہ عہدے دار یہاں آکر عیاشیوں میں پیسہ لٹاتے۔
جب شیطانی ظلمت عروج پر پہنچ جاتی ہے، جب بے حیائی کی کوئی حد نہیں رہتی، جب انسانیت کا پرچم سرنگوں ہوجاتا ہے، تب وقت آتا ہے کہ خدا اپنے عذاب کا پرچم لہرا دے۔
۲۴ اگست ۷۹ ء کی صبح دنیا کے لیے عام صبح تھی، لیکن اس شہر کے لیے نہیں، یہ اس شہر کی آخری صبح تھی۔ صبح سویرے شہر میں زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس ہونے لگے، یہ جھٹکے شہر والوں کے لیے معمول کی بات تھی لہٰذا کسی نے توجہ نہ دی اور معمول کے مطابق اپنی بدمستیوں میں مست رہے۔ صبح کے آٹھ بجے تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ آٹھ بجے کے بعد پہاڑ آہستہ آہستہ دھواں اور راکھ اگلنے لگا۔
دوپہر بارہ بجے تک شہر کے در و دیوار اور زمین پر راکھ کی دبیز تہہ جم گئی، زلزلے کے جھٹکوں کی شدت میں تیزی آگئی، پہاڑ سے دھواں اور راکھ نکلنے کی مقدار میں اضافہ ہوگیا، یہاں تک کہ لوگوں کی نظریں پہاڑ کی جانب اٹھنے لگیں۔ لیکن انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے یا انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جب تقدیر غالب آتی ہے تو سمجھ بوجھ مغلوب ہوجاتی ہے۔
دوپہر ایک بجے کا وقت وہ وقت تھا جب وقت کی مہلت ختم ہوئی اور خدائی عذاب کا نقارہ بج گیا۔ فَاَخَذَتْ۔ھُ۔مُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ (الحجر: ۸۳) ’’پھر انہیں صبح کے وقت سخت آواز نے آپکڑا۔‘‘ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پہاڑ پھٹ پڑا۔ اس دھماکہ کی شدت جاپان پر گرنے والے ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ تھی۔ پہاڑ کے دہانے سے دس میل اونچا دھوئیں اور راکھ کا ایک ستون آسمان کی جانب اٹھا، ایک عظیم چھتری کی شکل اختیار کی اور تیزی سے نیچے کی جانب آنے لگا۔ کثیف دھوئیں نے سورج کو دھندلا دیا اور بھری دوپہر میں اندھیرا چھا گیا۔ آتش فشاں پہاڑ سے شہر کا فاصلہ محض چھ کلومیٹر تھا۔ اگست کے مہینہ میں یہاں ہوا کا رخ ہمیشہ شہر سے پہاڑ کی جانب ہوتا ہے، لیکن آج ہوا کا رخ بھی الٹ گیا، پہاڑ سے شہر کی جانب ہوگیا۔ ہوا کے رخ پر سوار راکھ اور دھوئیں کا طوفان تیزی سے شہر کی جانب بڑھنے لگا۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر شہر کے باسیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ ساری بدمستیاں بھول کر تیزی سے طوفان کی مخالف سمت بھاگنے لگے۔ لیکن طوفان کی رفتار ان سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے دھوئیں اور راکھ کے طوفان نے لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ان کو سانس لینا دوبھر ہوا اور راستہ دکھائی دینا بند ہوگیا۔ ان کا ہر راستہ موت کی طرف جانے والا راستہ بن گیا، آج انہیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ لَ۔ہُ۔مْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاۃِ ال۔دُّنْیَا ۖ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَقُّ ۖ وَمَا لَ۔ہُ۔مْ مِّنَ اللّٰ۔ہِ مِنْ وَّاقٍ (ہود:۳۴) ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے، اور انہیں اللہ (کے عذاب)سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
کچھ لوگ تیزی سے سمندر کی جانب لپکے اور جہازوں کشتیوں میں سوار ہوکر جان بچانے چلے۔ لیکن خدا کا غضب آگ بن کر نازل ہونے لگا۔ دھوئیں اور راکھ کے بعد آتش فشاں پہاڑ سے آتشیں پتھر آتش بازی کی طرح شہر پر برسنے لگے۔ یہ آتشیں پتھر ایک ایک کو نشانہ بنانے لگے، نہ خشکی پر کسی کو چھوڑا نہ سمندر میں کسی کو بچ نکلنے کی مہلت دی۔ گھروں کی چھت توڑ کر ان کے سروں پر برسے، چھت گرنے سے لوگوں کی کھوپڑیاں چٹخ گئیں، جبڑے ٹوٹ گئے،سر دھڑ سے الگ ہوگئے اور ہڈی پسلی ایک ہوگئی۔ اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ یُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ وَکِیۡلًا(بنی اسرائیل:۶۸) پھر کیا تم اس بات سے نڈر ہو گئے کہ وہ تمہیں خشکی کی طرف لا کر زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے پھر تم کسی کو اپنا مددگار نہ پاؤگے۔
پہاڑ سے خارج ہونے والی گرم راکھ، زہریلی گیس اور ناقابل برداشت حدت نے کسی کو بھاگنے کا موقع نہ دیا۔ سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ حرارت نے جسم کی رگوں میں خون ابال دیا، گوشت اور کھال جھلسا دی اور دماغ کو کھوپڑی میں پگھلا دیا اور وہ لوگ سیکنڈوں میں ہلاک ہوگئے ۔ یہ ہلاکت اتنی اچانک تھی کہ جو جس حال میں تھا اسی حال میں مر گیا، جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا اور جو لیٹا تھا اسی حالت میں اکڑ کر رہ گیا، کوئی چت لیٹا تھا اور کوئی اوندھے منہ پڑا تھا۔ فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ (عنکبوت:37) انہیں زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے (ہلاک ہوکر) رہ گئے۔
خدا کا یہ قہر ۲۴ اگست کی دوپہر سے شروع ہوا اور ۲۵ اگست کو اٹھارہ گھنٹے تک نازل ہوتا رہا۔ اس دوران کسی ذی روح کو زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ کوئی آگ کے پتھر سے مرا تو کسی کو دھوئیں اور زہریلی گیس نے دم گھونٹ کر مار دیاباقی لوگ تیز جھلسا دینے والی تپش سے مر گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان عیاش اور بدکار لوگوں کی پوری آبادی لاشوں کا ڈھیر بن گئی، اب ان کی لاشوں پر آگ اور راکھ برس رہی تھی۔ فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۙمَّنۡضُوۡدٍ ( ہود:82) پھر جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے وہ بستیاں الٹ دیں اور اس زمین پر پتھر برسانا شروع کیے جو لگاتار گر رہے تھے۔
پورا شہر سترہ فٹ راکھ کے ملبہ میں دفن ہوکر دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوگیا، ایسا ہوگیا جیسے یہاں کبھی کوئی بسا ہی نہ تھا۔وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِىْ دِیَارِہِمْ جَاثِمِیْنَ كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا (ہود:9۵) اور ان ظالموں کو کڑک نے آ پکڑا پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے۔
پلینی (Pliny) نامی سترہ سالہ لڑکا اس سانحہ کے وقت اپنی ماں اور چچا کے ساتھ شہر سے چند میل دور واقع ایک مضافاتی مکان میں تھا۔ جب پہاڑ آگ اگلنے لگا تو یہ چھت پر آگیا اور اس تباہی کا چشم دید گواہ بن گیا۔ پلینی کے چچا امدادی کارروائی کے لیے کشتی لے کر شہر کی جانب گئے مگر وہاں موجود زہریلی گیسوں کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئے۔ پچیس سال بعد پلینی نے اپنے دوست ’’ٹے کی ٹَس‘‘ (Tacitus) کو دو خطوط لکھے جن میں چچا کی موت کا احوال بیان کرتے ہوئے اس سانحہ کا ذکر کیا۔ اس نے لکھا کہ مردوں کی پکار، عورتوں کی چیخیں اور بچوں کے رونےکی آوازیں دور دور تک سنائی دے رہی تھیں۔ بدمستی کا نشہ اترا تو سب کو اپنے اپنے خدا اور دیوی دیوتا یاد آگئے، انہیں پکارنے لگے، اپنے بیوی بچوں کو آوازیں دینے لگے۔ مگر آج ان کی شنوائی کے لیے کوئی نہیں آیا، جو آیا وہ بھی عذاب کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگیا۔ پلینی لکھتا ہے کہ رات کے وقت پہاڑ سے نکلنے والی آگ کی روشنی دور سے نظر آرہی تھی۔
گزرتے وقت کے ساتھ تاریخ میں اس شہر کا صرف نام باقی رہ گیا۔ آہستہ آہستہ لوگ بھول گئے کہ یہ شہر کہاں واقع تھا۔ پر ڈھونڈنے والے دوہزار سال سے اس کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ۱۷۴۸ء کو محققین کی ایک ٹیم کسی آثارِ قدیمہ کی تلاش میں کھدائی کررہی تھی کہ زمین میں دفن ایک شہر کے آثار نے ان کے جوش و خروش میں اضافہ کردیا۔جوں جوں کھدائی کرتے گئے ایک تہذیب یافتہ شہر اپنے منجمد ماضی کے ساتھ کھلتا گیا۔ راکھ و کیچڑ اور پتھروں سے اٹی شکستہ عمارتوں کا ملبہ اور اکڑی ہوئی انسانی لاشوں کا ڈھیر۔ جو آخری لمحات میں جس حالت میں تھا وقت نے اسی حالت میں اسے منجمد کردیا۔ کوئی بیٹھا ہوا تھا تو کوئی لیٹا ہوا اور کوئی اوندھے منہ پڑا ہوا۔ سب کے چہروں پر اذیت اور خوف نمایاں تھے۔
بچ جانے والی عمارتوں کے طرزِ تعمیر اور ان پر بنی تصاویر کے لیے استعمال ہونے والے رنگ و روغن کی چمک دمک نے ماہرین کے ہوش اڑا دئیے۔ شہر سے ملنے والی علامات اور تحریروں سے یہ راز فاش ہوا کہ یہ وہی شہرِ گمشدہ تھا جسے لوگ دو ہزار سال سے ڈھونڈ رہے تھے، جسے وقت نے عبرت کی نشانی بنانے کے لیے منجمد کر دیا اور جب خدا کا حکم ہوا زمین نے ہزاروں سال پرانا راز اگل دیا۔
اٹلی کا یہ گم شدہ شہر پومپے ’’Pompeii ‘‘ دنیا کے لیےنشانِ عبرت بن گیا۔ اس کے باسیوں کے جسم پر راکھ کی موٹی تہہ سخت پلاستر کی طرح جم چکی ہے۔ گرم راکھ نے ان کے لباس اور گوشت پوست کو پگھلا دیا تھا۔ راکھ کی تہہ کے اندر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا۔شہر میں موجود عمارتیں جو گناہوں اور عیش و عشرت کا مرکز تھیں آج نظارہ عبرت بنی ہوئی ہیں۔
عیش پرستوں اور بدمستوں کا یہ شہر آج شہر خموشاں بنا خدا کا فرمان یاد دلارہا ہے وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْھَآ اٰیَۃً بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (عنکبوت:35) ہم نے عقلمندوں کے لیے (عبرت حاصل کرنے کی خاطر) اس بستی کے آثار (جوں کے توں) چھوڑ دئیے!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اٹلی کا یہ گم شدہ شہر پومپے ’’Pompeii ‘‘ دنیا کے لیےنشانِ عبرت بن گیا۔ اس کے باسیوں کے جسم پر راکھ کی موٹی تہہ سخت پلاستر کی طرح جم چکی ہے۔ گرم راکھ نے ان کے لباس اور گوشت پوست کو پگھلا دیا تھا۔ راکھ کی تہہ کے اندر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا۔شہر میں موجود عمارتیں جو گناہوں اور عیش و عشرت کا مرکز تھیں آج نظارہ عبرت بنی ہوئی ہیں۔
عیش پرستوں اور بدمستوں کا یہ شہر آج شہر خموشاں بنا خدا کا فرمان یاد دلارہا ہے وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْھَآ اٰیَۃً بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (عنکبوت:35) ہم نے عقلمندوں کے لیے (عبرت حاصل کرنے کی خاطر) اس بستی کے آثار (جوں کے توں) چھوڑ دئیے!!!
بہت عبرت آموز آخری صبح پومپئی ۔۔بہت خوبصورت انداز میں آپ نے تحریر فرمائی ۔۔پروردگار آپکے آسانیاں فرمائے ۔سلامت رہیے ۔ڈھیروں دعائیں ۔
بیشک اللہ پاک نشانِ عبرت بنادیتے ہیں دنیا کے لئے۔اس شہر کے باسیوں کے اخلاقی اقدار کی پستی نے ڈبو دیا ۔پومپئی شہر کے قریب واقع آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا اور اس لاوا اگلنے لگا جس نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- پورا شہر ہی انسانوں کا قبرستان بن گیا جبکہ یہ مقام 16 سو سال تک انسانی آنکھوں سے اوجھل رہا-۔۔۔
اس شہر کی باقیات میں کھنڈرات نما اجڑے مکانات اور انسانی ڈھانچے آج بھی موجود ہیں جو انسانوں کے لیے عبرت کا نشان ہیں-۔۔۔
اے اللہ ہم تجھ سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اور ہمیں اور ہماری آنے والوں نسلوں کو ان دنیاوی فتنوں اور موت کے فتنوں سے پناہ عطا فرما کہ ان کا خطرہ بہت بڑا ہے۔فتنوں سے مُراد دجّالوں کا فتنہ ہے، جو سچی شکلوں کے ساتھ لوگوں پر ظاہر ہوںگے اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کریں گے۔ ان میں سب سے بڑا فتنہ کانا دجال کا فتنہ ہے، جس کے آخری زمانے میں نکلنے کے بارے میں احادیث ہیں اور اسی وجہ سے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے۔اے اللہ میں ہم جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں ۔۔
تمام مسلمانوں کو سچی توبہ اور استقامت نصیب فرمائے ۔آمین
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اس شہر گمشدہ کی خاص بات جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ دیگر معذب بستیوں کے برعکس پورے کا پورا شہر کسی حد تک اصلی خد و خال اور بستی کے باسیوں کی سینکڑوں لاشوں سمیت منظر عام پر موجود ہے۔ کسی کے علم میں کوئی اور مثال ہے تو وہ پیش کردیں۔ ہماری معلومات میں بھی اضافہ کا باعث ہوگا!!!
 
دو ہزار سال قبل ایک شہر تھا، خوبصورت اتنا گویا جنت کے باغ کا ٹکڑا زمین پہ رکھ دیا ہو۔ بیس ہزار کی آبادی والے شہر کے ایک طرف سمندر کا کنارہ تھا تو دوسری طرف بہتا دریا، ایک طرف سربفلک سبزے سے ڈھکا خوبصورت پہاڑ تھا اور باقی جانب جنگل اور کھیت کھلیان۔ خوش رنگ، رس بھرے ذائقہ دار پھلوں اور تازہ سبزیوں کی فراوانی تھی۔ خوبصورت گھر، پکی دیواروں پر شوخ چمک دار رنگوں کی بہار۔ گھر کے پچھلے حصہ میں بنے خوبصورت لان۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنائی گئی پختہ سڑکوں کے کنارے بنے فٹ پاتھ جن کے درمیان میں برساتی پانی کی نکاسی کے لیے پتھروں سے بنی چوڑی روش ۔ کچی سڑکیں نہ ہونے کے باعث شہر میں گرد و غبار کا نام و نشان نہ تھا۔ فراہمی آب کے لیے سیسے کے پائپ تھے جن سے ہر گھر میں پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ نکاسی آب کے لیے گھروں کی دیواروں کے ساتھ پختہ نالیاں اور گٹر کا باقاعدہ نظام تھا۔ جابجا بہترین طرز پر بنے بڑے بڑے حماموں میں ماربل کے باتھ ٹب نصب تھے۔ چھوٹے سے شہر میں تیس بیکریاں تھیں، بعض میں کھانے پینے کے لیے میز کرسیوں کا انتظام بھی تھا۔افریقہ اور شام سمیت مختلف ممالک سے لائے گئے غلاموں اور کنیزوں کی بہتات تھی۔ دو ہزار سال قبل اس شہر میں وہ تمام سہولیات موجود تھیں جو آج کے جدید دور میں لوگ استعمال کرتے ہیں۔
جتنا خوبصورت شہر کے باسیوں کا ظاہر تھا اتنا ہی سیاہ ان کا باطن ۔خوبصورت لوگ، حسین مناظر، دولت کی فراوانی، بھرپور صحت اور خوش و خرم زندگی۔ ان نعمتوں نے لوگوں کو لذت پرست بنادیا، ہر طرح کا عیش حاصل کرنا زندگی کا مقصد بن گیا۔عیاشیوں میں لگ کر جائز ناجائز، حلال حرام کسی چیز کی پرواہ نہ رہی۔ سب سے بڑی برائی جو اُن میں پروان چڑھ رہی تھی، وہ بے محابہ حرام کاری تھی۔ شرم و حیا ایسی رخصت ہوئی کہ مرد مرد کے لیے، عورت عورت کے لیے، مرد عورت کے لیے اور عورت مرد کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتے۔ غلاموں اور کنیزوں سے ان کے آقا یہ کام کروا کے پیسے کماتے۔ شہر کے حماموں میں مرد عورت اکٹھے نہانے لگے۔ چھوٹے سے شہر میں جگہ جگہ برائی کے مراکز قائم ہوگئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر دوسرا گھر برائی کا اڈہ بن گیا۔ ان کے نزدیک محنت مزدوری کی بنسبت اس کام سے پیسہ حاصل کرنا زیادہ آسان تھا۔ جانوروں تک سے یہ برا کام کرنے کو باعثِ فخر سمجھتے۔ کارِ شیطانی نے ان کا باطن اس قدر شیطانی بنادیا کہ دیواروں پر ان بدکاریوں کی حیا سوز عریاں تصاویر سرعام بنانے لگے، ایسی تصاویر جنہیں کوئی شریف و نیک دل انسان آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔
رفتہ رفتہ اس شہر کی پہچان شراب، جوا اور بدکاری بن گئی۔ آس پاس کے شہروں سے لوگ ان کاموں کے لیے یہاں کا رخ کرنے لگے، بڑے بڑے تاجر اور شاہی دربار سے وابستہ عہدے دار یہاں آکر عیاشیوں میں پیسہ لٹاتے۔
جب شیطانی ظلمت عروج پر پہنچ جاتی ہے، جب بے حیائی کی کوئی حد نہیں رہتی، جب انسانیت کا پرچم سرنگوں ہوجاتا ہے، تب وقت آتا ہے کہ خدا اپنے عذاب کا پرچم لہرا دے۔
۲۴ اگست ۷۹ ء کی صبح دنیا کے لیے عام صبح تھی، لیکن اس شہر کے لیے نہیں، یہ اس شہر کی آخری صبح تھی۔ صبح سویرے شہر میں زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس ہونے لگے، یہ جھٹکے شہر والوں کے لیے معمول کی بات تھی لہٰذا کسی نے توجہ نہ دی اور معمول کے مطابق اپنی بدمستیوں میں مست رہے۔ صبح کے آٹھ بجے تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ آٹھ بجے کے بعد پہاڑ آہستہ آہستہ دھواں اور راکھ اگلنے لگا۔
دوپہر بارہ بجے تک شہر کے در و دیوار اور زمین پر راکھ کی دبیز تہہ جم گئی، زلزلے کے جھٹکوں کی شدت میں تیزی آگئی، پہاڑ سے دھواں اور راکھ نکلنے کی مقدار میں اضافہ ہوگیا، یہاں تک کہ لوگوں کی نظریں پہاڑ کی جانب اٹھنے لگیں۔ لیکن انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے یا انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جب تقدیر غالب آتی ہے تو سمجھ بوجھ مغلوب ہوجاتی ہے۔
دوپہر ایک بجے کا وقت وہ وقت تھا جب وقت کی مہلت ختم ہوئی اور خدائی عذاب کا نقارہ بج گیا۔ فَاَخَذَتْ۔ھُ۔مُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ (الحجر: ۸۳) ’’پھر انہیں صبح کے وقت سخت آواز نے آپکڑا۔‘‘ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پہاڑ پھٹ پڑا۔ اس دھماکہ کی شدت جاپان پر گرنے والے ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ تھی۔ پہاڑ کے دہانے سے دس میل اونچا دھوئیں اور راکھ کا ایک ستون آسمان کی جانب اٹھا، ایک عظیم چھتری کی شکل اختیار کی اور تیزی سے نیچے کی جانب آنے لگا۔ کثیف دھوئیں نے سورج کو دھندلا دیا اور بھری دوپہر میں اندھیرا چھا گیا۔ آتش فشاں پہاڑ سے شہر کا فاصلہ محض چھ کلومیٹر تھا۔ اگست کے مہینہ میں یہاں ہوا کا رخ ہمیشہ شہر سے پہاڑ کی جانب ہوتا ہے، لیکن آج ہوا کا رخ بھی الٹ گیا، پہاڑ سے شہر کی جانب ہوگیا۔ ہوا کے رخ پر سوار راکھ اور دھوئیں کا طوفان تیزی سے شہر کی جانب بڑھنے لگا۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر شہر کے باسیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ ساری بدمستیاں بھول کر تیزی سے طوفان کی مخالف سمت بھاگنے لگے۔ لیکن طوفان کی رفتار ان سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے دھوئیں اور راکھ کے طوفان نے لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ان کو سانس لینا دوبھر ہوا اور راستہ دکھائی دینا بند ہوگیا۔ ان کا ہر راستہ موت کی طرف جانے والا راستہ بن گیا، آج انہیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ لَ۔ہُ۔مْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاۃِ ال۔دُّنْیَا ۖ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَقُّ ۖ وَمَا لَ۔ہُ۔مْ مِّنَ اللّٰ۔ہِ مِنْ وَّاقٍ (ہود:۳۴) ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے، اور انہیں اللہ (کے عذاب)سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
کچھ لوگ تیزی سے سمندر کی جانب لپکے اور جہازوں کشتیوں میں سوار ہوکر جان بچانے چلے۔ لیکن خدا کا غضب آگ بن کر نازل ہونے لگا۔ دھوئیں اور راکھ کے بعد آتش فشاں پہاڑ سے آتشیں پتھر آتش بازی کی طرح شہر پر برسنے لگے۔ یہ آتشیں پتھر ایک ایک کو نشانہ بنانے لگے، نہ خشکی پر کسی کو چھوڑا نہ سمندر میں کسی کو بچ نکلنے کی مہلت دی۔ گھروں کی چھت توڑ کر ان کے سروں پر برسے، چھت گرنے سے لوگوں کی کھوپڑیاں چٹخ گئیں، جبڑے ٹوٹ گئے،سر دھڑ سے الگ ہوگئے اور ہڈی پسلی ایک ہوگئی۔ اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ یُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ وَکِیۡلًا(بنی اسرائیل:۶۸) پھر کیا تم اس بات سے نڈر ہو گئے کہ وہ تمہیں خشکی کی طرف لا کر زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے پھر تم کسی کو اپنا مددگار نہ پاؤگے۔
پہاڑ سے خارج ہونے والی گرم راکھ، زہریلی گیس اور ناقابل برداشت حدت نے کسی کو بھاگنے کا موقع نہ دیا۔ سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ حرارت نے جسم کی رگوں میں خون ابال دیا، گوشت اور کھال جھلسا دی اور دماغ کو کھوپڑی میں پگھلا دیا اور وہ لوگ سیکنڈوں میں ہلاک ہوگئے ۔ یہ ہلاکت اتنی اچانک تھی کہ جو جس حال میں تھا اسی حال میں مر گیا، جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا اور جو لیٹا تھا اسی حالت میں اکڑ کر رہ گیا، کوئی چت لیٹا تھا اور کوئی اوندھے منہ پڑا تھا۔ فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ (عنکبوت:37) انہیں زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے (ہلاک ہوکر) رہ گئے۔
خدا کا یہ قہر ۲۴ اگست کی دوپہر سے شروع ہوا اور ۲۵ اگست کو اٹھارہ گھنٹے تک نازل ہوتا رہا۔ اس دوران کسی ذی روح کو زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ کوئی آگ کے پتھر سے مرا تو کسی کو دھوئیں اور زہریلی گیس نے دم گھونٹ کر مار دیاباقی لوگ تیز جھلسا دینے والی تپش سے مر گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان عیاش اور بدکار لوگوں کی پوری آبادی لاشوں کا ڈھیر بن گئی، اب ان کی لاشوں پر آگ اور راکھ برس رہی تھی۔ فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۙمَّنۡضُوۡدٍ ( ہود:82) پھر جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے وہ بستیاں الٹ دیں اور اس زمین پر پتھر برسانا شروع کیے جو لگاتار گر رہے تھے۔
پورا شہر سترہ فٹ راکھ کے ملبہ میں دفن ہوکر دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوگیا، ایسا ہوگیا جیسے یہاں کبھی کوئی بسا ہی نہ تھا۔وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِىْ دِیَارِہِمْ جَاثِمِیْنَ كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا (ہود:9۵) اور ان ظالموں کو کڑک نے آ پکڑا پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے۔
پلینی (Pliny) نامی سترہ سالہ لڑکا اس سانحہ کے وقت اپنی ماں اور چچا کے ساتھ شہر سے چند میل دور واقع ایک مضافاتی مکان میں تھا۔ جب پہاڑ آگ اگلنے لگا تو یہ چھت پر آگیا اور اس تباہی کا چشم دید گواہ بن گیا۔ پلینی کے چچا امدادی کارروائی کے لیے کشتی لے کر شہر کی جانب گئے مگر وہاں موجود زہریلی گیسوں کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئے۔ پچیس سال بعد پلینی نے اپنے دوست ’’ٹے کی ٹَس‘‘ (Tacitus) کو دو خطوط لکھے جن میں چچا کی موت کا احوال بیان کرتے ہوئے اس سانحہ کا ذکر کیا۔ اس نے لکھا کہ مردوں کی پکار، عورتوں کی چیخیں اور بچوں کے رونےکی آوازیں دور دور تک سنائی دے رہی تھیں۔ بدمستی کا نشہ اترا تو سب کو اپنے اپنے خدا اور دیوی دیوتا یاد آگئے، انہیں پکارنے لگے، اپنے بیوی بچوں کو آوازیں دینے لگے۔ مگر آج ان کی شنوائی کے لیے کوئی نہیں آیا، جو آیا وہ بھی عذاب کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگیا۔ پلینی لکھتا ہے کہ رات کے وقت پہاڑ سے نکلنے والی آگ کی روشنی دور سے نظر آرہی تھی۔
گزرتے وقت کے ساتھ تاریخ میں اس شہر کا صرف نام باقی رہ گیا۔ آہستہ آہستہ لوگ بھول گئے کہ یہ شہر کہاں واقع تھا۔ پر ڈھونڈنے والے دوہزار سال سے اس کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ۱۷۴۸ء کو محققین کی ایک ٹیم کسی آثارِ قدیمہ کی تلاش میں کھدائی کررہی تھی کہ زمین میں دفن ایک شہر کے آثار نے ان کے جوش و خروش میں اضافہ کردیا۔جوں جوں کھدائی کرتے گئے ایک تہذیب یافتہ شہر اپنے منجمد ماضی کے ساتھ کھلتا گیا۔ راکھ و کیچڑ اور پتھروں سے اٹی شکستہ عمارتوں کا ملبہ اور اکڑی ہوئی انسانی لاشوں کا ڈھیر۔ جو آخری لمحات میں جس حالت میں تھا وقت نے اسی حالت میں اسے منجمد کردیا۔ کوئی بیٹھا ہوا تھا تو کوئی لیٹا ہوا اور کوئی اوندھے منہ پڑا ہوا۔ سب کے چہروں پر اذیت اور خوف نمایاں تھے۔
بچ جانے والی عمارتوں کے طرزِ تعمیر اور ان پر بنی تصاویر کے لیے استعمال ہونے والے رنگ و روغن کی چمک دمک نے ماہرین کے ہوش اڑا دئیے۔ شہر سے ملنے والی علامات اور تحریروں سے یہ راز فاش ہوا کہ یہ وہی شہرِ گمشدہ تھا جسے لوگ دو ہزار سال سے ڈھونڈ رہے تھے، جسے وقت نے عبرت کی نشانی بنانے کے لیے منجمد کر دیا اور جب خدا کا حکم ہوا زمین نے ہزاروں سال پرانا راز اگل دیا۔
اٹلی کا یہ گم شدہ شہر پومپے ’’Pompeii ‘‘ دنیا کے لیےنشانِ عبرت بن گیا۔ اس کے باسیوں کے جسم پر راکھ کی موٹی تہہ سخت پلاستر کی طرح جم چکی ہے۔ گرم راکھ نے ان کے لباس اور گوشت پوست کو پگھلا دیا تھا۔ راکھ کی تہہ کے اندر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا۔شہر میں موجود عمارتیں جو گناہوں اور عیش و عشرت کا مرکز تھیں آج نظارہ عبرت بنی ہوئی ہیں۔
عیش پرستوں اور بدمستوں کا یہ شہر آج شہر خموشاں بنا خدا کا فرمان یاد دلارہا ہے وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْھَآ اٰیَۃً بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (عنکبوت:35) ہم نے عقلمندوں کے لیے (عبرت حاصل کرنے کی خاطر) اس بستی کے آثار (جوں کے توں) چھوڑ دئیے!!!
بہت اعلی۔۔ انداز تحریر کا کیا ہی کہنا
 
Top