آج 27 فروری ہے۔

آج 27 فروری ہے۔ میرے سامنے بھارتی، پاکستانی اور عالمی ذرائع ابلاغ کھلے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کے اردو اخبارات سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی خبر آج سے 10 سال پہلے اس واقعہ کی ہے جب بھارتی گجرات کے علاقے گودھرا میں ہندو کارسیوکوں کی ایک ٹرین جلی تھی۔ کسی ہندو نے فوری طور پر اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا تو پھر اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں سے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو گجرات کے ہنستے بستے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ’’ہندوئوں کو جلایا ہے‘‘ بس اب ہر ہندو کی کوشش تھی کہ جو مسلمان ملے اور اس کا جو کچھ ملے اسے جلا دیا جائے۔ پھر کیا تھا …؟ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے گھر، دکانیں، کارخانے اور گاڑیاں سب کچھ جلنے لگیں۔ جو سامنے نظر آیا، مارا گیا۔ یہ سلسلہ ایک دودن نہیں، ہفتوں جاری رہا۔ کوئی ہاتھ روکنے والا نہ تھا۔ دنیا میں کوئی ٹوکنے والا نہ تھا۔ جس نے بھاگنے کی کوشش کی، اس کا انجام بھی بہت خوفناک ہوا۔ یہ گودھرا کی مدینہ مشتاق شیخ ہیں… آج 27 فروری کو احمد آباد کے ایک قبرستان میں اپنے شوہر، بیٹی، سسر، جیٹھ کی قبروں پر کھڑی ہیں اور آنسو بہاتے بتا رہی ہیں کہ ہمارے محلے گہول پر حملہ ہوا… ہم نے سمجھا کہ دروازے بند کر کے بچ جائیں گے لیکن جب ہم نے دیکھا کہ حملہ آور ہندو ہتھوڑوں اور کلہاڑیوں سے دروازے توڑ کر گھروںمیں گھس کر آگ لگا رہے ہیں تو ہم سب فوراً جس حال میں تھے، گھر سے بھاگ نکلے… ہمارے سامنے کھیت تھے… سارا خاندان دو گروپ بنا کر کھیتوں میں چھپ گیا… تھوڑی دیر ہم نے سمجھا کہ اب ہندو چلے گئے ہیں تو ہم کھیتوں سے نکل کر آگے بڑھنا شروع ہی ہوئے تھے کہ ہندوئوں کے بڑے بڑے جتھے ایک ساتھ نمودار ہوئے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا… میری 16 سالہ بیٹی شبانہ کچھ زیادہ ہی ڈر گئی وہ مجھے چھوڑ کر میرے سسر اور جیٹھ کی طرف بھاگی کہ شاید اس طرح بچ جائے… مجھے موقع ملا تو میں بھاگ کر قریبی جھاڑیوں میں چھپ گئی۔ اب فسادی ہندوئوں کی توجہ ان پر تھی جو ان کے قابو آ چکے تھے۔ میری بیٹی کو ہندوئوں نے دبوچ لیا تھا، میری آنکھوں کے سامنے… انہوں نے پہلے میری بیٹی کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ دوسرے گروپ نے میرے شوہر، سسر اور جیٹھ کو مار مار کر گرایا اور ان کے کلہاڑیوں سے ٹکڑے کر کے آگ لگا دی۔ اب میری بیٹی ان کے قابو میں تھی۔ کپڑے پھاڑنے اور اسے مکمل برہنہ کرنے کے بعد ان ہندوئوں نے کھلے عام ان کی عصمت دری شروع کر دی تھی… ایک پھر دو پھر تین اور پھر جس جس کا بس چلا اس نے ہوس پوری کی اور جب انہوں نے سمجھا کہ شبانہ اب کسی کام کی نہیں تو انہوں نے اسے اسی حالت میں تڑپتے ہوئے کلہاڑیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا… ذرا سوچئے! اس وقت مجھ پر کیا گزری ہو گی…؟ لیکن مجھے پتہ تھا کہ میں بولتی تو میرا بھی یہی حال ہوتا… یہ منظر دیکھ کر بھی اپنے انجام سے ڈرتی وہیں کڑھتی سینہ تانے سر جھکائے پڑی رہی۔ ہندو چلے گئے تو میں بھاگ کر دوسرے علاقے میں پہنچی اور پھر نہ جانے کیسے جان بچ پائی۔
آج بھی یہ حسرت رلا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ کیا ہوا… ! میں اس وقت رو سکی نہ آج فریاد کر سکتی ہوں۔
اس کے ساتھ بیٹھی سلطانہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی کہ کسی دوسرے نے بتانا شروع کیا کہ اس کو بھی مردوں سمیت ہندو گھسیٹ کر سڑک کے بیچ لے آئے تھے۔ پہلے اس کے خاندان کے سارے مرد ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے سامنے پھینکے اور وہیں اس کے کپڑے پھاڑ کر اتارے گئے… اور پھر جتنوں سے ممکن تھا، سب نے اس کی خوب عصمت دری کی اور جب وہ مکمل بے ہوش ہو کر گر گئی تو ہندو فسادی اسے مردہ سمجھ کر چلے گئے۔ گھنٹوں بعد ہوش آیا تو پاس ٹکڑوں کی شکل میںاپنے خاندان کے مردوں کی لاشوں سے اس نے کپڑے اتارے، جس حد تک ممکن تھا اپنا جسم ڈھانپا اور پھر وہاں سے گرتی پڑتی نجانے کیسے چھپ کر جان بچانے میں کامیاب ہوئی۔ آج 27 فروری ہے سارے بھارت میں وشوا ہندو پریشد کے لوگ اپنے کارسیوکوں کی یاد میں بھارت بھر میں تقریبات منعقد کر رہے ہیں اور ساتھ ہی جشن منا رہے ہیں کہ انہوں نے سابرمتی ٹرین میں جلنے والے 67 بھائیوں کا خوب بدلا لیا تھا۔ ہاں آج 27 فروری ہے، میرے سامنے پاکستانی میڈیا ہے… صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک پاکستانی بھانڈ عورت جس کا آدھا جسم ننگا ہے، امریکہ میں ایک ایوارڈ وصول کر رہی ہے۔ سارا پاکستانی میڈیا جشن منا رہا ہے۔ مبارکبادیں دے رہا ہے کہ پاکستان نے نئی تاریخ رقم کر دی… کمال ہو گیا، جیو… اور جیو… یوں جیو… پاکستان سے دنیا بھر کو خوشگوار پیغامات، عورت نے ایوارڈ جیت لیا۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ کافروں نے اسے ایوارڈ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے پر دیا ہے، اندھے پاکستانی وزیراعظم نے ملک کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی اسی عورت کے نام کر دیا ہے۔ ہر خبر، ہر شہ سرخی، ہر پٹی
اسی پر چل رہی ہے… کہیں گجرات کا ذکر نہیں، ان 30 ہزار جل مرنے والے شہید مسلمانوں کا ذکر نہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ تم نے ایسا کیا کر لیا کہ جس پر اس قدر خوش ہو… ہاں تم خود خوش نہیں، تمہیں تو اس کام پر لگایا گیا ہے کہ تم یہی سبق خود بھی پڑھو اور پڑھائو… ہاں آج ملک بھر کے وکیلوں نے امریکی فوج کی جانب سے بگرام اڈے پر 100 قرآنی نسخے جلانے کے خلاف ہڑتال اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے لئے کہیں کوئی جگہ نہیں۔ کوئی معمولی سی پٹی بھی نہیں… کیوں…؟ اس لئے کہ قرآن سے اور اسلام سے وابستہ ہر انسان اور فرمان سے ان کا تو زندگی میں تعلق ہی نہیں۔ یہ تو محض نام کے مسلمان ہیں اور اگر ممکن ہو تو شاید اس سے بھی تائب ہو جائیں جو ممکن نہیں… اپنے آقاوئوں کو خوش کرنے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جا رہے ہیں لیکن کیا انہیں یاد نہیں کہ کچھ بھی ہو جائے… آخر کار یہ مر جائیں گے۔ سینکڑوں من مٹی کے نیچے دفن ہو کر اندھیری کوٹھڑی، تنگ گڑھے کے سپرد ہوں گے۔ وہاں نہ کچھ کھانے کو ہو گا اور نہ دیکھنے کو… نرم بستر تو کیا …؟کمر سیدھی کرنے کی جگہ نہیں ہو گی۔ کیڑے مکوڑے… سانپ سنپولے آئیں گے اور پھر… اسی جسم کو کھانا شروع کریں گے کہ جسے چکاچوند روشنیوں میں دن رات ہزاروں کی کریمیں، پائوڈر، پرفیومز اور نجانے کیا کیا لگا لگا کر سجایا جاتا تھا… جسم کا ایک ایک انگ اور ایک ایک بال سنوارہ جاتا تھا کہ آسکر لینا ہے… آسکر دکھانا ہے… آسکر سجانا ہے… آسکر لانا ہے… دنیا کو پیغام پہنچانا ہے… اب کیا ہو گا…؟ وہ سب تو یہاں کہیں بھی نہیں ان کے پیچھے بچ جانے والے کہیں گے اب ان کے لئے قرآن لائو اور یہاں کے لئے ان کا کچھ انتظام کرو… لیکن اب کیا یہ قرآن ان کے لئے کچھ کرے گا…؟ نہیں ’’جائو جو تم نے ہمارے ساتھ کیا تھا آج وہی تمہارے ساتھ ہو گا‘‘ یہ تو پہلے ہی ہو گیا۔ جو تم نے کیا آج وہی تمہارے ساتھ ہونے والا ہے۔
میرے سامنے عالمی میڈیا کھلا ہے… 40 افغان قرآن پر قربان ہو چکے ہیں۔ کیسے…؟ بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں نے قرآن کے نسخوں کو آگ لگائی۔ افغانوں کی غیرت جاگ اٹھی۔ ملازم امریکیوں کے تھے… غلام اپنے رب کے تھے… وہیں امریکیوں پر ہلہ بول دیا۔ باہر خبر پہنچی تو ہزاروں باہر سے پل پڑے… امریکیوں سے ان کی پوسٹیں تک چھین لیں، مار مار کر سب کو بھگا دیا۔ اگلے روز قندوز کا اڈہ امریکیوں سے چھین لیا۔ کابل میں امریکہ کے دو اعلیٰ ترین عہدیدار واصل جہنم کر ڈالے۔ امریکہ سمیت سارے اتحادیوں نے کابل سے اپنے سفارتی عملے کو نکلنے کا حکم دے دیا۔ پہلے امریکی جنرل نے معافی مانگی پھر اوبامہ نے معافی مانگی لیکن معافی کی گنجائش نہیں۔ امریکیوں کے لئے جگہ زمین میں نہیں زمین کے نیچے ہے۔
کہتے تھے کہ امریکہ اور امریکی طاقت بڑی بلا ہے… امریکہ کا صدر دنیا کو بے شمار مرتبہ ایٹمی بٹن دبا کر تہس نہس کر سکتا ہے… تو پھر ہاتھ نہ جوڑے… بٹن دبائے… نہیں دبا سکتا کہ اس کی گردن دب چکی ہے… سارے اتحادی افغانستان سے بھاگنے کی باتیں کر رہے ہیں …کوئی کیسے رہے وہاں کبھی نہ جان… ہاں آج 27 فروری ہے… کچھ لوگوں کی جھوٹی اور رسوا کن ذلت چھوڑ عزت کا دن اور کچھ کے لئے سر اٹھا کر جینے کا دن… جن کے حکم پر سر جھکائے تم اپنی نیم برہنہ عورتوں کے ایوارڈ پر فخر کر رہے ہو ذرا دیکھو تو یہی تمہیں ذلت کے طوق پہنانے والے… آج خود کس کے ہاتھوں ذلت کے طوق پہن کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہیں۔
دنیا مردار بچھڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہے (مسلم) یہ فرمان ہے میرے حضورﷺ کا… دنیا پر مر مرمٹنے والو… تمہارے ساتھ مرداروں جیسا سلوک اس وقت ہوتا

بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
بدقسمت مسلمان
ہندوستان میں بھی تباہ اور پاکستان میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی
جو گجرات میں ہوا وہ دل دکھانے والا ہے۔ اگر پاکستانی عوام نے توبہ نہ کیی تو حال اس سے بھی برا ہوسکتا ہے خدا نہ کرے
 
Top