آج پھر اُن سے سامنا ہو گا

سیما علی

لائبریرین
آج پھر اُن سے سامنا ہو گا
دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا

گفتگو سے کریں گے وہ بھی گریز
دل ہمیں بھی سنبھالنا ہو گا

پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی
کچھ نگاہوں نے کہہ دیا ہو گا

کیا ہُوا ہم جو ہمسَفَر نہ ہُوئے
شہر بھر ساتھ ہو لیا ہو گا

دوستی میں تَو یہ بھی ہوتا ہے
لڑکھڑائے تو تھامنا ہو گا

ہم نے سمجھا دیا تھا دیکھ اے دِل
زندگی بھر کا سلسلہ ہو گا

پھر خیالوں میں کھو گئے ضامنؔ
کوئی چپکے سے آ گیا ہو گا

ضامن جعفری
 
Top