طارق شاہ
محفلین

غزل
اِک خواب ِ دل آویز کی نِسبت سے مِلا کیا
جُز دَربَدَرِی، اُس دَرِ دَولت سے مِلا کیا
آشوبِ فراغت! تِرے مُجرم ، تِرے مجبوُر
کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے مِلا کیا
اِک نغمہ کہ خود اپنے ہی آہنگ سے محجوب
اِک عُمر کہ پِندار ِ سماعت سے مِلا کیا
اِک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں سے ہراساں
آخر کو شب و روز کی وحشت سے مِلا کیا
جاں دے کے بھی ، بالا نہ ہُوئے نرخ ہمارے !
بازار ِمعانی میں مشقّت سے مِلا کیا
جِیتا ہُوا میدان، کہ ہاری ہُوئی بازی
اِس خانہ خرابی کی اذِیّت سے مِلا کیا
اِک خِلعَتِ دُشنام و کُلاہِ سُخَن ِ بَد
شُہرت تو بہت پائی، پہ شُہرت سے مِلا کیا
افتخار عارف