‏فاعلاتن مفاعلن فعلن

گر میں ان سے ملا نہیں ہوتا
عشق کا سانحہ نہیں ہوتا
حادثے تو بہت ہوئے لیکن
جانے کیوں تو مرا نہیں ہوتا
بد گماں مجھ سے کر گیا کوئی
ورنہ وہ تو خفا نہیں ہوتا
سوز ہم کو ملے مگر دائم
گاہے گاہے بُکا نہیں ہوتا
چاہتیں ہیں کہ جو بدلتی ہیں
عشق تو بارہا نہیں ہوتا
ان کے دربار کا جو سائل ہے
وہ کسی کا گدا نہیں ہوتا
جانے کیسے وفا پرست ہیں وہ
جن سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
اک تری دید خارج از امکاں
"ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا"
جب سے دیکھا ہے روبرو ان کو
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
کون کہتا ہے عشق میں گوہرؔ
"رنج راحت فزا نہیں ہوتا"
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین

اک تری دید خارج از امکاں
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

جب سے دیکھا ہے روبرو ان کو
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
جس طرح آپ نے آخری مصرعے کو واوین میں لکھا ہے اسی طرح ان اشعار کے دوسرے مصرعے بھی واوین میں لکھیے کیونکہ یہ بھی مومن ہی کے مصرعے ہیں:

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

مومن خان مومن
 
Top