فراز اِس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

عاطف بٹ

محفلین
اِس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی​
ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں
یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی​
تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں
آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی​
ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے
تو نے کس گھڑی ظالم میری ہمنوائی کی​
ترک کر چکے قاصد کوئے نامراداں کو
کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی​
طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی​
پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد
دیکھنا اڑا دے گا پھر خبر رہائی کی​
دکھ ہوا جب اس در پر کل فراز کو دیکھا
لاکھ عیب تھے اس میں، خو نہ تھی گدائی کی​
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ
پہلے دونوں قطعہ بند اشعار تو حاصل غزل ہیں:
اِس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں
یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی​
 
Top