اُٹھو!مہاجرو ! اُٹھو

اُٹھو!مہاجرو ! اُٹھو

اُٹھو! اے اہل کراچی اُٹھو! خدا کے لیے انگڑائی لو! اپنے اوپر بلیک میلنگ جیسے پست الزامات لگنے کے اسباب رفع کرو! خدا کی قسم ! جن لوگوں کی جدوجہد چند وزارتوں کے حصول پر موقوف رہی‘ وہ تمہارے نمائندے نہیں ہو سکتے! کسی کے ہاتھ میں نہ کھیلو! مضحکہ خیز گیت گانے والوں کی پرورش کا تم کیوں سامان بنتے ہو؟ جن کے اہل و عیال بحراوقیانوس کے پار ہیں‘ انہیں وہیں بھیجو‘ اٹھو‘ انگڑائی لو‘ استعفوں کا کھیل تمہاری قامت سے بہت نیچے اور تمہاری شان سے بہت کم ہے! اپنے عالی مرتبت نام کے ساتھ ''بوری بند‘‘ جیسے مکروہ سابقے اور لاحقے لگانے والوں کی نام نہاد لیڈری کو بوری میں بند کر کے بحیرہ عرب میں پھینک دو! قیادت ایسی چنو جو سر سید احمد خان‘ علی برادران ‘ حکیم اجمل خان‘ لیاقت علی خان‘ حکیم محمد سعید‘ پروفیسر کرار حسین مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے پائے کی ہو! اپنا رشتہ پورے ملک کی مڈل کلاس سے جوڑو! سب تمہارے اپنے ہیں اور تمہیں مایوس نہیں کریں گے!
 
ایک لڑکا اپنی ماں کا بہت لاڈلا تھا ۔ جب کوئی ناجائز خواہش ظاہر کرتا اور ماں نہ مانتی تو چھت پر چڑھ کر کہتا ”ماں ۔ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔ ماں بیچاری پریشان ہو جاتی اور بیٹے کی بات مان لیتی ۔ فرمائشیں پوری کرتے کرتے ماں تھک چُکی تھی کہ ایک دن بیٹا پھر چھت پر چڑھ کر بولا ”ماں ۔ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔ ماں نے کہا ” لگا دے چھلانگ یہ روز روز کی بک بک تو ختم ہو“۔ بیٹا نیچے اُتر آیا اور بولا ” اچھا ماں ۔ میں تیری بات مان لیتا ہوں“۔
 

loneliness4ever

محفلین
اٹھو مہاجر، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، پٹھان، کشمیری اٹھو اس دیس کے باسیوں
چاہے کسی زبان ، کسی نسل، کسی فرقے، کسی گھرانے سے تعلق ہو تمہارا
اٹھو اور پاکستانیت کی لڑی سے اپنے ہر خیال، ہر پکار کو باندھ لو

محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان

اس دیس کے رہنے والو!!!
آزادی کے دن مہاجر، پٹھان، بلوچی وغیرہ نامی غلامی کی زنجیروں سے آزادی حاصل کر لو

محکوم خیالوں سے آزادی عطا کر دے
غافل کو میرے مالک بیداری عطا کر دے
 
اُٹھو!اہل کراچی! اُٹھو
محمد اظہار الحق دنیا نیوز

جمال احسانی مرحوم یارِ طرح دار تھا اور شاعر نغزگو‘ کیسے کیسے شعر کہہ گیا ؎
تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے
اوریہ بھی ؎
یہ لالٹین ہے کہ چوکیدار کے
نحیف ہاتھ میں کوئی ستارہ ہے
مزے لے لے کر واقعہ سنایا کرتا کہ ایک صاحب کراچی میں اپنے آپ کو مغل خانوادے کا آخری چشم و چراغ کہتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے لال قلعہ قسم کی جائیدادوں کی وراثت کا دعویٰ بھی کیا ہوا تھا۔ ایک دن جوش ملیح آبادی کے پاس آئے اور شعر سنانے شروع کیے ۔ بے وزن‘ بے ہنگم اور مضحکہ خیز شاعری تھی۔ جوش صاحب کہاں تک برداشت کرتے‘ زچ ہو کر ملازم سے کہا اسے باہر نکال دو۔ وہ صاحب باہر نکلتے ہوئے جوش صاحب کو کہے جا رہے تھے:''جوش صاحب! دم خم ہے تو شاعری میں مقابلہ کیجیے ۔ غنڈہ گردی پر کیوں اترآئے ہیں؟‘‘
زوال کی مثال دینے کے لیے یہ کوئی زیادہ موزوں واقعہ نہیں‘ اس لیے کہ واقعہ کم اور لطیفہ زیادہ ہے۔ زوال آتا ہے تو ہمہ گیر ہوتا ہے۔ آندھی آتی ہے تو گلاب ہو یا نسترن‘ کسی کو نہیں چھوڑتی ؎
تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
زوال آیا ہے تو ایسا ہمہ گیر کہ کچھ نہیں بچا۔ یونیورسٹیاں سیاست کے اکھاڑے بن گئیں اور سیاسی جماعتیں ڈیروں پر پرورش پانے والے گروہ! بلندی کیسی تھی اور پستی کیسی ہے! کہاں ذوالفقار علی بھٹو ‘ اور کہاں زرداری خاندان! کہاں قائد اعظم اور کہاں میاں محمد نواز شریف‘ کہاں مولانا مودودی اور کہاں منور حسین اور سراج الحق ! کہاں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور کہاں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ۔ ہمہ گیرزوال ہے کچھ بھی نہیں بچا۔ لیکن جو زوال اردو بولنے والی آبادی پر آیا ہے‘ اسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کمر سے پٹکا باندھ کر بال کھول لیے جائیں ‘ اورسینہ کوبی وہ کی جائے کہ ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے
یہ جو خطہ ہے کرنال سے پٹنہ تک کا۔1206ء میں دہلی کے پہلے سلطان قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے عروج نامسعود تک۔ برصغیر کے مسلمانوں کی نہ صرف عسکری اور سیاسی قیادت کرتا رہا۔تعلیمی ثقافتی اور سماجی رہبری بھی اسی کے پاس تھی ! تغلقوں کا عہد تھا یا مغلوں کا دنیا کے چوٹی کے علماء ‘ دانش ور اور اہل کمال اسی خطے میں تھے ٹھیک ہے زوال کا ذمہ دار بھی یہی خطہ تھا لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ زوال کے زمانے میں بھی ڈھارس بندھی تو یہیں سے! بریلی ہی کے سید احمد شہید اور پٹنہ ہی کے ولایت علی اور عنایت علی برادران نے تحریک مجاہدین چلائی۔ غلام رسول مہر‘تحریک مجاہدین کی تاریخ میں جن مجاہدوں کے نام گنواتے ہیں ان میں میانوالی کے اعوان بھی تھے لیکن قیادت شمالی ہند ہی کی رہی! مسلمانوں کو جدید تعلیم و ترقی کی راہ پر لانے والے سر سید سے لے کر مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی تک رہنما یہیں سے اٹھے۔ ابو الکلام آزاد‘ علی برادران‘ حکیم اجمل خان ‘ حسرت موہانی‘ سب یہیں سے تھے قائد اعظم جنوب سے تھے مگر مسلم لیگ کی جدوجہد کا مرکز یو پی تھا! قائد اعظم کے ساتھ کھڑے ہونے والے علماء‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع یہیں سے تھے اور تو اور قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی علمی ثقافتی اور تنظیمی باگ ڈور حکیم سعید‘ پروفیسر محمود حسین ‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور پروفیسر کرار حسین جیسوں کے ہاتھوںمیں رہی۔
مگر افسوس! صد افسوس ! آج ایم کیو ایم جس طرح اپنے آپ کو تضحیک کا سامان بنا رہی ہے‘ دماغوں اور دلوں میں اپنے بارے میں جو تاثر قائم کیے جا رہی ہے‘ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تعلیمی اور ثقافتی قیادت کرنے والوں نے اپنا کیا حال کر لیا ہے ؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جوگوشِ نصیحت نیوش ہے
ایک زمانہ تھا جب ان حضرات کے آبائو اجداد اپنی عزت کے بارے میں اس قدر حساس تھے کہ غربت میں بھی وقار قائم رکھتے تھے‘ فاقوں سے مر جاتے تھے کسی کے سامنے دست سوال درازنہیں کرتے تھے‘ فکر یہ ہوتی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔
اب حالت یہ ہے کہ کون سی بات ہے جو نہیں کی جا رہی اور کون سی تضحیک ہے اور پھبتی‘ جو اڑائی نہیں جا رہی ! بلیک میلنگ کا الزام لگ رہا ہے۔ دہشت گردی‘ قتل و غارت اورجسموں میں ڈرلنگ کرنے کے الزامات تو پرانے ہو چکے ''بوری بند‘‘ ایسا محاورہ بنا کہ نتھی ہی ہو گیا۔
جب بھی الطاف بھائی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ جس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں بیٹھ کر ٹیلی فونک تقریریں سنی جاتی ہیں‘ اس کے لیے کیا کیا تشبیہیں نہیں تراشی گئیں۔ اب جو قومی اسمبلی میں استعفے دیئے گئے ہیں تو خلق خدا کہہ رہی ہے کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور مقصد استعمال کرنے والوں کا کراچی میں لیے گئے ایکشن کی کشتی میں سوراخ کرنا ہے۔ کثیر تعداد لوگوں کی یہ بھی رائے رکھتی ہے کہ یہ بلیک میلنگ ہے جو اس گروہ کا وتیرہ ہی بن چکا ہے!
اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ دو المیے ہوئے اور دونوں المیے ایسے کہ مُہر پر مُہر لگتی گئی! سندھی وڈیروں‘ بلوچی جاگیرداروں اور اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے کے بجائے پٹھان پنجابی کشمیری کہلانے والوں نے اردو سپیکنگ حضرات کو دیوار سے لگایا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مہاجر کہلانے پر مجبور ہو گئے ۔ استبدادی کوٹہ سسٹم تو ناانصافی کی طویل داستان کا محض ایک باب ہے ! اس المیے نے انہیں پاکستانی سے مہاجر بنا دیا؟ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ مڈل کلاس کے نام پر ایم کیو ایم بنی تو اس کے رہنمائو ں کی کثیر تعداد مڈل کلاس کو خیر باد کہہ کر اپر کلاس میں منتقل ہو گئی۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ کراچی اور حیدر آباد کے لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اور سب کچھ سامنے دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے اور ساتھ رہے! ورنہ کیا انہیں نہیں معلوم تھا کہ لندن میں براجمان قیادت‘ ہاتھوں سے ایک پتہ توڑے بغیر‘ قابل رشک معیار زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے! کیا وہ نہیں جانتے کہ کن کن لیڈروں کے کنبے امریکہ میں کہاں کہاں رہ رہے ہیں! دیکھتے دیکھتے اثاثے کروڑوں اربوں تک پہنچ گئے۔ وہ جو اداکارائیں ہمیشہ پچیس برس ہی کی رہتی ہیں‘ تو لیڈر بھی مڈل کلاس ہی میں رہے! دوسری طرف شہرت اس قدر خراب ہوئی کہ حکیم سعید‘ رئیس امروہی اور صلاح الدین محمد جیسے مشاہیر‘ جو انہی کے چشم و چراغ تھے‘ خلق خدا نے انہیں کے کھاتے میں ڈالے۔ ثبوت ہو نہ ہو‘ زبان خلق کو کون روک سکتا ہے!!
ایک سوال ہے جو رہ رہ کر ذہن میں اٹھتا ہے۔ دماغ میں چبھتا ہے اور دل میں گرہ ڈالتا ہے۔ جب قائد تحریک ٹیلی فونک خطاب کے دوران‘ گانے گاتے ہیں اور عجیب و غریب کیفیتوں کے مظاہرے کرتے ہیں تو اس وقت تحریک کے رہ نما‘ اکثریت جن کی سنجیدہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ کیا نہیں سوچتی کہ صورتحال مضحکہ خیز ہے سخت مضحکہ خیز اور یہ کہ تحریک سے باہر کے لاکھوں کروڑوں لوگ ہمارے بارے میں اور ہمارے قائد کے بارے میں کیا کہیں گے اور کیا رائے رکھیں گے؟کیا برصغیر کے مسلمانوں کی علمی اور دینی قیادت کرنے والوں کے قابل فخر جانشینوں میں سے کسی کو بھی نہیں معلوم کہ زکوٰۃ ‘ فطرانے اور کھالیں سیاست چلانے کے لیے نہیں ہوتیں؟
اُٹھو! اے اہل کراچی اُٹھو! خدا کے لیے انگڑائی لو! اپنے اوپر بلیک میلنگ جیسے پست الزامات لگنے کے اسباب رفع کرو! خدا کی قسم ! جن لوگوں کی جدوجہد چند وزارتوں کے حصول پر موقوف رہی‘ وہ تمہارے نمائندے نہیں ہو سکتے! کسی کے ہاتھ میں نہ کھیلو! مضحکہ خیز گیت گانے والوں کی پرورش کا تم کیوں سامان بنتے ہو؟ جن کے اہل و عیال بحراوقیانوس کے پار ہیں‘ انہیں وہیں بھیجو‘ اٹھو‘ انگڑائی لو‘ استعفوں کا کھیل تمہاری قامت سے بہت نیچے اور تمہاری شان سے بہت کم ہے! اپنے عالی مرتبت نام کے ساتھ ''بوری بند‘‘ جیسے مکروہ سابقے اور لاحقے لگانے والوں کی نام نہاد لیڈری کو بوری میں بند کر کے بحیرہ عرب میں پھینک دو! قیادت ایسی چنو جو سر سید احمد خان‘ علی برادران ‘ حکیم اجمل خان‘ لیاقت علی خان‘ حکیم محمد سعید‘ پروفیسر کرار حسین مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے پائے کی ہو! اپنا رشتہ پورے ملک کی مڈل کلاس سے جوڑو! سب تمہارے اپنے ہیں اور تمہیں مایوس نہیں کریں گے!
-http://m.dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2015-08-14/12280/34300494
 
خلق خدا کہہ رہی ہے کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور مقصد استعمال کرنے والوں کا کراچی میں لیے گئے ایکشن کی کشتی میں سوراخ کرنا ہے۔ کثیر تعداد لوگوں کی یہ بھی رائے رکھتی ہے کہ یہ بلیک میلنگ ہے جو اس گروہ کا وتیرہ ہی بن چکا ہے!
زکوٰۃ ‘ فطرانے اور کھالیں سیاست چلانے کے لیے نہیں ہوتیں؟
کوئی شک؟
 

وشال احمد

محفلین
کراچی کے ایک اسکول میں بچوں کو " سندھی ہم ، بلوچی ہم ، پنجابی ہم ، پٹھان ہم، اس پرچم کے نیچے پاک فوج کے جوان ہم " کا نغمہ رٹایا جا رہا تھا۔ ہمیں یہ گانا سن کر اپنا بچپن یاد آگیا۔ یہ ساٹھ کی دھائی کے آخری برس تھے۔ دوسری یا تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں "پاکستانی بچے"کے عنوان سے ایک سبق ہوتا تھا۔ اس سبق میں پاکستانی بچوں کا تعارفی احوال بیان کیاگیا تھا۔ ان میں پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ اور بنگالی بچوں کے بارے میں بتایا گیا تھا اور ساتھ ہی ان کی روایتی علاقائی لباس میں ملبوس ہاتھ سے بنی ہوئی ڈرایئنگ بھی شامل تھیں۔
ہم اس وقت مدرسے میں حفظ قران کے طالبعلم تھے لیکن ہماری والدہ اسکول کی کتابیں ہمیں گھر پر پڑھاتی تھیں تاکہ حفظ قران کے بعد اسکول میں پانچویں جماعت میں داخلہ ہوجائے ۔ فاطمہ جناح پرایوب خان کی دھاندلی زدہ فتح اور اسکے بعد کراچی پر صوبہ سرحد سے ٹرکوں پر بیٹھ کر کراچی پر یلغار کرنے والے وحشیوں کے ہاتھوں مہاجروں کے قتل عام کو زیادہ دن نہیں گذرے تھے اور اس وقت کے واقعات کا خوف ہمارے ننھے ذہنوں پر طاری تھا۔ایسے میں جب ہم یہ سبق پڑھتے تو لاشعوری طور پر ہی سہی لیکن یہ خیال ہمارے ذہن میں آتا تھا کہ ہم لوگ کون ہیں! ہمارے پٹھان استادہمیں ہندوستانی کہتے تھے پھر بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم ہندوستانی کیسے ہوگئے کیونکہ پینسٹھ کی جنگ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تصورات بھی ہمارے ذھنوں میں بڑی حد تک پختہ ہوچکے تھے اور ہم سمجھنے لگے تھے کہ ہندوستان ہمارا دشمن ملک ہے۔ پھر ہمیں ہندوستانی کیوں کہا جاتا تھا؟ کہنے والے بھی وہ جو ہمارے نزدیک عقل کل تھے یعنی ہمارے استاد! ہم نے اپنی امی سے اور والد سے بچپنے کے الفاظ میں جب یہ سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ہندوستانی نہیں ہیں بلکہ ہم نے ہندوستان کو توڑ کر پاکستان بنایا ہے اسی لئے ہندوستان ہمارا دشمن ہے، ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا وطن ہے ۔ہم مطمئن نہ ہوئے تھوڑے بڑے ہوئے تو ایک اور لفظ سنا یہ مہاجر کا لفظ تھا۔ یہ بھی ہم نے اپنے والدسے سنا جن کے قطعات اس وقت کے اخبارا ت انجام اور حریت میں شائع ہوتے تھے اور جن کا موضوع زیادہ تر مہاجروں کی زبوں حالی اور حکومتوں کی انکے مسائل سے چشم پوشی ہوا کرتا تھا۔
جب ہمیں یہ ادراک ہوا کہ ہم مہاجر نہ تو سندھی ہیں اور نہ ہی پنجابی، پٹھان، بنگالی یا بلوچ بلکہ ہم تو اسی طرح ایک الگ تہذیبی شناخت رکھنے والےلوگ ہیں جیسے یہ لوگ ہیں تو یہ خیال بھی آیا کہ آخر یہ اردو کی کتاب میں ان سب کے ساتھ ہمارا نام کیوں نہیں دیا گیا! اس کے ساتھ ہی ذہن کی گرہیں کھلنا شروع ہویئں، کھلنا تو کیا تھیں بلکہ اور الجھنے لگیں کہ آخر ہمیں پاکستانیوں میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایوب خانی آمریت پنجاب کے ساتھ مل کر مہاجروں کے خلاف ناپاک کھیل کھیل رہی تھی۔ بیوروکریسی سے ان ہزاروں مہاجروں کو بیک جنبش قلم نکال باہر کیا گیا تھا جنہوں نے اپنی اعلی قابلیت اور بہترین ذھنی صلاحیتوں کے ذریعے ایک نوزایئدہ مملکت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا تھا۔ کراچی کا سیاسی کردار ختم کرنے کیلئے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا۔ فوج میں بھرتی کیلئے اپنی اور اپنے باپ کی جائے پیدائش پوچھے جانے کے ساتھ ساتھ اب دادا کی جائے پیدائش بھی پوچھی جانے لگی تھی۔ وہ صنعت کاراور تاجرجنہوں نے پاکستان کیلئے سادے چیک پیش کئے تھے ان پر زمین تنگ کی جارہی تھی اور انہیں ملیں اور کارخانے بند کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔
بالآخر ہمیں اردو کی کتاب میں شامل اس سبق کا مطلب سمجھ میں آنا شروع ہوا۔ اسکے بعد کی کہانی اس سبق کے نتیجے میں حاصل ہونے والا وہ سبق ہے جسے ہم نے اور ہماے ساتھ اس پوری قوم نے جسے پاکستانی بھی کہا جاتا ہےپڑھا بھی اور اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھا جب مشرقی پاکستان جسے سنہری ریشے کی سرزمین کہتے تھے، جہاں کا صوبائی دارالحکومت مسجدوں کا شہر کہلاتا تھا اور جہاں پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی وہاں کے رہنے والوں نے اپنے لئے ایک الگ راستہ چن لیا جس پر اب وہ بڑی خوشحالی کے ساتھ چلے جارہے ہیں۔ یہ زمین کا تعصب تھا جس نے پاکستانیوں کو بجائے ایک قوم بنانے کے انہیں اہل زمین بنا دیا اور جو حقیقت میں اس ملک کے معمار تھے انہیں فرزند زمین نہ ہونے کے جرم میں پاکستانی قومیت ہی سے خارج کردیا۔ کاش جس وقت اردو کی کتاب میں یہ سبق شامل کیا جارہا تھا کوئی اس پر احتجاج کرتا اور اسے نصابی کتاب سے خارج کروا دیتا اور اسکے بجائے ایک ایسا سبق اس میں شامل کیا جاتا جس میں ایک پاکستانی قوم ہونے کی بات کیجاتی تو شائدآج دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش نام کا ملک موجود نہ ہوتا۔ آج اس وقت کا بویا ہوا ہم سب کاٹ رہے ہیں لیکن بات یہ ہےکہ قومیں اپنی تاریخ سے سبق حاصل نہ کریں تو تاریخ انہیں اپنے صفحات سے مٹا دیا کرتی ہے۔ آج جب اسکول میں ننھے بچوں کو یہ رٹتے ہوئے سنا کہ "سندھی ہم بلوچی ہم ، پنجابی ہم پٹھان ہم، اس پرچم کے نیچے پاک فوج کے جوان ہم" تو خیال آیا کہ جیسے برسوں پہلے ایسا ہی ایک سبق پڑھ کرہمارے ننھے سے ذہن میں بے شمار خیال کلبلانے لگے تھے اسی طرح کیا یہ ننھے منے بچے جو اس وقت کے مقابلے میں زیادہ با خبر ہیں اور جنکی دسترس میں ریڈیو یا اخبار نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے چلنے والا ٹی وی، انٹرنیٹ سے لیس کمپیوٹراور جدید ترین سیل فون ٹیکنالوجی ہے وہ بھلا کیوں نہ سوچیں گے کہ کیا پاکستانی فوج کا جوان بننے کیلئے پنجابی یا سندھی، بلوچی پٹھان بننا پڑے گا ؟ کیا ان چار کے علاوہ پاکستانی فوج کا جوان کوئی اور نہیں ہوسکتا؟کچھ اوربڑے ہونگے تووہ یہ بھی ضرور سوچیں گےکہ اگر ان کے دادا یا نانا ہندوستان میں نہیں پیدا ہوئے ہوتے تو وہ بھی پاکستانی فوج کے جوان بن سکتے تھے۔

ہمارے ذہن میں یہ سوال بار بار ابھر رہا ہے کہ ملک کو پنجابی، سندھی، بلوچ پٹھان میں تقسیم کرنے والایہ نغمہ کس کی ایماء پراور کن مقاصد کے تحت پاکستانی اسکولوں کے بچوں کو رٹایا جا رہا ہے! کون ہے جو اس ملک کو صرف فرزندان زمین کا وطن بنانے پر مصر ہے اور اس مذموم مقصد کیلئے اسے ملک کی سلامتی کی بھی کوئی پروا نہیں ہے؟کون ہے جو مہاجروں کے معصوم بچوں کے ذہنوں میں یہ زہر گھول رہا ہےکہ صرف پنجابی پٹھان بلوچ اور سندھی ہی پاکستانی ہیں اور تمہارا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ تمہارے آباء کا اس زمین سے تعلق نہیں تھا اسلئے تم پاکستانی نہیں ہوسکتے۔ آج جب مہاجر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں اپنے آپ کو مہاجر شناخت دینے پر مجبور کردیا گیا ہے تو کئی بزعم خود بقراط اپنی تحریروں میں یا ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر سوال کرتے ہیں کہ آخر پاکستان بننے کے ستر برس گذرجانے کے بعد بھی تم لوگ اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہو تو ہم بھی ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان بننے کے ستر برس گذر جانے کے بعد بھی تم اپنے آپ کو پنجابی، پٹھان اور سندھی بلوچی کیوں کہتے ہو۔ ہمیں تو تم نے مجبور کردیا کہ ہم اپنی شناخت مہاجر کے نام سے کرایئں لیکن تمہیں کس نے مجبور کیا ہے کہ تم اپنے آپ کو پنجابی یا سندھی پٹھان اور بلوچ کہتے ہو؟ آج جب مہاجر اپنے ساتھ سندھ میں ہونے والے انتہائی ناروا اور نفرت وتعصب پر مبنی سلوک سے تنگ آکر اپنے لئےعلیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ صوبہ نہیں بن سکتا، جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ لسانی بنیادوں پر صوبے بنے تو قومی یکجہتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے لیکن وہ اس بات کا جواب دینے سے پہلو بچا جاتے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ چار صوبے کیا لسانی بنیادوں پر نہیں بنے ہیں؟ کیا انکے نام بذات خود ان کی لسانی بنیادوں کی نشاندھی نہیں کرتے؟
خدا کا واسطہ الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی لگانے سے پہلےاس منفی اور زہرآلود نغمے کو بند کرو۔ پاکستان کی افواج صرف اور صرف پاکستانی ہیں، یہ پنجابی یا پٹھان فوجیں نہیں ہیں۔ اگرتہذیبی،نسلی اور لسانی شناختیں باقی رکھنی ہیں توسب کی شناخت کو تسلیم کرو اور اگر نہیں تو تم سب اپنی صوبائی، نسلی اورلسانی شناختوں سے دستبردار ہوکرپاکستانی بن جاؤ۔ آج اگر تم یہ فیصلہ کر لیتے ہو تو سب سے پہلے اپنی تہذیبی شناخت سے دستبردار ہونے والے ہم ہونگے۔ اللہ ہمارے وطن کی حفاظت کرے۔ آمین۔
ذیل میں ہم نے کچھ تصاویر شامل کی ہیں جو اپنی وضاحت خود کرتی ہیں اور جو کچھ اوپر بیان کیا گیا اسکی تایئد کرتی ہیں۔
 
مہاجر قوم کا لفظ پاکستانی قوم سے غداری ہے ۔ پنجابی - سندھی ۔ بلوچی - خیبر پختونخواہ ۔ گلگت بلتستان ۔ قبائلی علاقے یہ وہ وحدتیں ہیں جو علاقائی بنیاد پر انتظامات کے لیئے تشکیل دی گئی ہیں ۔ ہم سب بحیثیت قوم پاکستانی ہیں ۔ اور اس سے پہلے مسلمان ہیں ۔ الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی صد فی صد درست ہے۔ پنجاب میں بھی اس وقت بھی لاکھوں کی تعداد میں آپ کے بقول مہاجرین نہ صرف موجود ہیں بلکہ تمام معاملوں میں مکمل ترین حقوق سے مالا مال ہیں ۔ معاشرے میں گھل مل کر خود کو اسکا حصہ بنانا آپ کو قوم میں ضم کرتا ہے نہ کہ ہر تکلیف پر مہاجریت کی عینک لگا کر خود کو معاشرے سے کاٹ لینا ۔ بچے نے بی اے کر لیا نوکری نہیں ملی تو وجہ مہاجر ہونا ہی ہوگا۔ ہم کاروبار کرنے سے ڈرتے ہیں تو بھی وجہ مہاجریت ہوگی ۔ ناکامی کے اسباب پیدا کرنے کی بجائے انہیں ختم کرنا سیکھو ۔ پنجاب میں رہنے والے مہاجر یا قدیمی مقیمین انتظامی طور پر پنجابی ہیں پنجابی کوئی قوم نہیں ۔ اسی طرح سندھ میں رہنے والے سندھی ہیں اور بلوچستان میں بلوچی (بلوچ نہیں) خیبر کے رہائشی خود کو پٹھان کہلاتے ہیں تو صد بسم اللہ یہ قومی تقسیم نہیں ہے بلکہ انتظامی تقسیم ہے ۔ آپ خود کو جس صوبے میں رہتے ہو اس صوبے کے رہائشی کی حیثیت سے سمجھو گے تو ہی اس کا حصہ بنو گے ۔ میرے بڑے بھی ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے مگر میں پنجابی ہوں ۔ کیوں ۔۔؟ کیوں کہ پنجاب کی دھرتی نے مجھے اپنایا ۔ میں نے بھی اسکا حصہ بن کر اسے اپنا سمجھا ۔ پنجابی ہونا کسی قوم کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا حصہ ہے ۔ آور پاک فوج پاکستان کی انتظامی وحدتوں سے بنی ہے ۔ اور پاکستان کی فوج ہے ۔ مشرف آپ کی تعریف کے مطابق مہاجر تھا ۔ ساری عمر نہیں رویا کہ مہاجر ہوں ۔ چلو اسے فوج میں نوکری مل گئی تھی حکیم سعید کو کس ادارے میں نوکری ملی تھی وہ بھی تو آپ کے مطابق مہاجر تھے نا۔۔؟ پاک فوج میں قوموں کی بات کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ ایک غیر متنازعہ ترانے کو متنازعہ کرنے کی یہ احمقانہ کوشش تاریخ کو مسخ مرنے کی کوشش کے علاوہ اور کیا ہے ۔

رہی بات مہاجر کی تو یہ ایم کیو ایم نامی ایک دہشت گرد ناہنجار احمق اور فورم کا اخلاقی ماحول اجازت نہیں دیتا کہ اس شخص کو القابات دوں جو برطانوی شہری ہے کی رہ نمائی میں چلنے والی ایسی جماعت کا بویا ہوا وہ حرام کا پودا ہے جس نے آپ جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے گو کہ اس میں اس قدر کامیابی انہیں نہیں ملی جو ملی وہ دہشت و جرائم کی ایسی کہانی ہے جسے سننا آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں
 
5595cb27212ee.jpg


http://www.dawn.com/news/1191922

پاکستان کے وحدت کی اکائیاں
 

وشال احمد

محفلین
مہاجر قوم کا لفظ پاکستانی قوم سے غداری ہے ۔ پنجابی - سندھی ۔ بلوچی - خیبر پختونخواہ ۔ گلگت بلتستان ۔ قبائلی علاقے یہ وہ وحدتیں ہیں جو علاقائی بنیاد پر انتظامات کے لیئے تشکیل دی گئی ہیں ۔ ہم سب بحیثیت قوم پاکستانی ہیں ۔ اور اس سے پہلے مسلمان ہیں ۔ الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی صد فی صد درست ہے۔ پنجاب میں بھی اس وقت بھی لاکھوں کی تعداد میں آپ کے بقول مہاجرین نہ صرف موجود ہیں بلکہ تمام معاملوں میں مکمل ترین حقوق سے مالا مال ہیں ۔ معاشرے میں گھل مل کر خود کو اسکا حصہ بنانا آپ کو قوم میں ضم کرتا ہے نہ کہ ہر تکلیف پر مہاجریت کی عینک لگا کر خود کو معاشرے سے کاٹ لینا ۔ بچے نے بی اے کر لیا نوکری نہیں ملی تو وجہ مہاجر ہونا ہی ہوگا۔ ہم کاروبار کرنے سے ڈرتے ہیں تو بھی وجہ مہاجریت ہوگی ۔ ناکامی کے اسباب پیدا کرنے کی بجائے انہیں ختم کرنا سیکھو ۔ پنجاب میں رہنے والے مہاجر یا قدیمی مقیمین انتظامی طور پر پنجابی ہیں پنجابی کوئی قوم نہیں ۔ اسی طرح سندھ میں رہنے والے سندھی ہیں اور بلوچستان میں بلوچی (بلوچ نہیں) خیبر کے رہائشی خود کو پٹھان کہلاتے ہیں تو صد بسم اللہ یہ قومی تقسیم نہیں ہے بلکہ انتظامی تقسیم ہے ۔ آپ خود کو جس صوبے میں رہتے ہو اس صوبے کے رہائشی کی حیثیت سے سمجھو گے تو ہی اس کا حصہ بنو گے ۔ میرے بڑے بھی ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے مگر میں پنجابی ہوں ۔ کیوں ۔۔؟ کیوں کہ پنجاب کی دھرتی نے مجھے اپنایا ۔ میں نے بھی اسکا حصہ بن کر اسے اپنا سمجھا ۔ پنجابی ہونا کسی قوم کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا حصہ ہے ۔ آور پاک فوج پاکستان کی انتظامی وحدتوں سے بنی ہے ۔ اور پاکستان کی فوج ہے ۔ مشرف آپ کی تعریف کے مطابق مہاجر تھا ۔ ساری عمر نہیں رویا کہ مہاجر ہوں ۔ چلو اسے فوج میں نوکری مل گئی تھی حکیم سعید کو کس ادارے میں نوکری ملی تھی وہ بھی تو آپ کے مطابق مہاجر تھے نا۔۔؟ پاک فوج میں قوموں کی بات کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ ایک غیر متنازعہ ترانے کو متنازعہ کرنے کی یہ احمقانہ کوشش تاریخ کو مسخ مرنے کی کوشش کے علاوہ اور کیا ہے ۔

رہی بات مہاجر کی تو یہ ایم کیو ایم نامی ایک دہشت گرد ناہنجار احمق اور فورم کا اخلاقی ماحول اجازت نہیں دیتا کہ اس شخص کو القابات دوں جو برطانوی شہری ہے کی رہ نمائی میں چلنے والی ایسی جماعت کا بویا ہوا وہ حرام کا پودا ہے جس نے آپ جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے گو کہ اس میں اس قدر کامیابی انہیں نہیں ملی جو ملی وہ دہشت و جرائم کی ایسی کہانی ہے جسے سننا آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں
میں حرام کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس شخص سے منہ لگنا نہیں چاہتا اس لئے جواب نہیں دوں گا ۔ شیطان یا اس کی ذریت سے مکالمے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔
 

وشال احمد

محفلین
مہاجر قوم کا لفظ پاکستانی قوم سے غداری ہے ۔ پنجابی - سندھی ۔ بلوچی - خیبر پختونخواہ ۔ گلگت بلتستان ۔ قبائلی علاقے یہ وہ وحدتیں ہیں جو علاقائی بنیاد پر انتظامات کے لیئے تشکیل دی گئی ہیں ۔ ہم سب بحیثیت قوم پاکستانی ہیں ۔ اور اس سے پہلے مسلمان ہیں ۔ الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی صد فی صد درست ہے۔ پنجاب میں بھی اس وقت بھی لاکھوں کی تعداد میں آپ کے بقول مہاجرین نہ صرف موجود ہیں بلکہ تمام معاملوں میں مکمل ترین حقوق سے مالا مال ہیں ۔ معاشرے میں گھل مل کر خود کو اسکا حصہ بنانا آپ کو قوم میں ضم کرتا ہے نہ کہ ہر تکلیف پر مہاجریت کی عینک لگا کر خود کو معاشرے سے کاٹ لینا ۔ بچے نے بی اے کر لیا نوکری نہیں ملی تو وجہ مہاجر ہونا ہی ہوگا۔ ہم کاروبار کرنے سے ڈرتے ہیں تو بھی وجہ مہاجریت ہوگی ۔ ناکامی کے اسباب پیدا کرنے کی بجائے انہیں ختم کرنا سیکھو ۔ پنجاب میں رہنے والے مہاجر یا قدیمی مقیمین انتظامی طور پر پنجابی ہیں پنجابی کوئی قوم نہیں ۔ اسی طرح سندھ میں رہنے والے سندھی ہیں اور بلوچستان میں بلوچی (بلوچ نہیں) خیبر کے رہائشی خود کو پٹھان کہلاتے ہیں تو صد بسم اللہ یہ قومی تقسیم نہیں ہے بلکہ انتظامی تقسیم ہے ۔ آپ خود کو جس صوبے میں رہتے ہو اس صوبے کے رہائشی کی حیثیت سے سمجھو گے تو ہی اس کا حصہ بنو گے ۔ میرے بڑے بھی ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے مگر میں پنجابی ہوں ۔ کیوں ۔۔؟ کیوں کہ پنجاب کی دھرتی نے مجھے اپنایا ۔ میں نے بھی اسکا حصہ بن کر اسے اپنا سمجھا ۔ پنجابی ہونا کسی قوم کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا حصہ ہے ۔ آور پاک فوج پاکستان کی انتظامی وحدتوں سے بنی ہے ۔ اور پاکستان کی فوج ہے ۔ مشرف آپ کی تعریف کے مطابق مہاجر تھا ۔ ساری عمر نہیں رویا کہ مہاجر ہوں ۔ چلو اسے فوج میں نوکری مل گئی تھی حکیم سعید کو کس ادارے میں نوکری ملی تھی وہ بھی تو آپ کے مطابق مہاجر تھے نا۔۔؟ پاک فوج میں قوموں کی بات کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ ایک غیر متنازعہ ترانے کو متنازعہ کرنے کی یہ احمقانہ کوشش تاریخ کو مسخ مرنے کی کوشش کے علاوہ اور کیا ہے ۔

رہی بات مہاجر کی تو یہ ایم کیو ایم نامی ایک دہشت گرد ناہنجار احمق اور فورم کا اخلاقی ماحول اجازت نہیں دیتا کہ اس شخص کو القابات دوں جو برطانوی شہری ہے کی رہ نمائی میں چلنے والی ایسی جماعت کا بویا ہوا وہ حرام کا پودا ہے جس نے آپ جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے گو کہ اس میں اس قدر کامیابی انہیں نہیں ملی جو ملی وہ دہشت و جرائم کی ایسی کہانی ہے جسے سننا آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں
میں حرام کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس شخص سے منہ لگنا نہیں چاہتا اس لئے جواب نہیں دوں گا ۔ شیطان یا اس کی ذریت سے مکالمے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔​
 
Top