اُوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں

ظفری

لائبریرین
اُوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں

درپیش صبح وشام یہی کشمکش ہے اب
اُ س کا بنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں

مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جنتا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں

اس طرح پھیر پھیر کے باتیں نہ کیجئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں

ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں

امجد تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گرنے کا ایسا خوف تھا ٹہرا نہیں ہوں میں
(امجد اسلام امجد )
 
اسی زمیں پر ملاحظہ ہو

ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں

اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں

چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں

یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے
میں گردشِ دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں

اُن کے لیے لڑ جاؤں گا تقدیر میں تجھ سے
حالانکہ کبھی تجھ سے میں اُلجھا تو نہیں ہوں

ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

کیوں شور بپا ہے ذرا دیکھو تو نکل کر
میں اُس کی گلی سے ابھی گزرا تو نہیں ہوں

مضطرؔ مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی، اُن کا تماشا تو نہیں ہوں

(آفتاب مضطر)
 
Top