اکبر الہ آبادی اُنہیں نِگاہ ہے اپنے جَمال ہی کی طرف

طارق شاہ

محفلین
غزل
اکبرالہٰ آبادی

اُنہیں نِگاہ ہے اپنے جَمال ہی کی طرف
نظر اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف

توجّہ اپنی ہو کیا فنِ شاعری کی طرف
نظرہرایک کی جاتی ہےعیب ہی کی طرف

لِکھا ہُوا ہے جو رونا مرے مقدّر میں
خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف

تمہارا سایا بھی جو لوگ دیکھ لیتے ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے پری کی طرف

بَلا میں پھنستا ہےدل، مُفت جان جاتی ہے
خُدا کسی کو نہ لیجائے اُس گلی کی طرف

کبھی جو ہوتی ہے تکرارغیر سے، ہم سے
تو دل سے ہوتے ہو درپردہ تم اُسی کی طرف

نِگاہ پڑتی ہے اُن پرتمام محفل کی
جو آنکھ اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف

نِگاہ اُس بُتِ خود بِیں کی ہے مرے دل پر
نہ آئینہ کی طرف ہے، نہ آرسی کی طرف

قبول کیجئے، لِلہ تحفۂ دل کو
نظر نہ کیجئے اس کی شِکستگی کی طرف

یہی نظر ہے جو اب قاتلِ زمانہ ہوئی
یہی نظر ہے، کہ اُٹھتی نہ تھی کسی کی طرف

غریب خانہ میں لِلہ دو گھڑی بیٹھو
بہت دِنوں میں تم آئے ہو اِس گلی کی طرف

ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف

جوگھرمیں پوچھے کوئی، خوف کیا ہے کہدینا
چلے گئے تھے ٹہلتے ہوئے کسی کی طرف

ہزار جلوۂ حُسنِ بُتاں ہو اے اکبر
تم اپنا دھیان لگائے رہو اُسی کی طرف

اکبرالہٰ آبادی​
 

سید زبیر

محفلین
نِگاہ پڑتی ہے اُن پرتمام محفل کی
جو آنکھ اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
واہ بہت خوب انتخاب ہے شراکت کا شکریہ
 

طارق شاہ

محفلین
نِگاہ پڑتی ہے اُن پرتمام محفل کی
جو آنکھ اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
واہ بہت خوب انتخاب ہے شراکت کا شکریہ
جناب زبیر صاحب
اظہار خیال کے لئے تشکّر
خوشی ہوئی کہ پیش کردہ غزل آپ کو پسند آئی
بہت خوش رہیں
 
Top