اُداس شامیں۔

رشید حسرت

محفلین
خموش صُبحیں، اُداس شامیں، ترا پتہ مجھ سے پوچھتی ہیں
بتاؤں کیا اب کہ یہ فضائیں، پلٹ کے کیا مجھ سے پوچھتی ہیں

اُداس چڑییں جو دن کو دانے کی کھوج میں تھیں ہیں لوٹ آئی
کہاں ھے شاخِ شجر کہ جس پر تھا گھونسلہ، مجھ سے پوچھتی ہیں

تمہیں تو صحرا نوردیوں میں کمال ھے کچھ ہمیں بتاؤ
کمال کی ہیں جو ہستیاں آبلہ پا، مجھ سے پوچھتی ہیں

فقیہہِ شہرِ بلا نے مجھ کو تو مدّتوں سے ھے قید رکھا
عدالتیں ہیں کہ اب کہیں جا مِری خطا مجھ سے پوچھتی ہیں

کوئی تعلق، کوئی بھی ناتا نہیں رہا ھے تو نا سہی اب
یہ پاک بازوں کی ٹولیاں کچھ بھی کیوں بھلا مجھ سے پوچھتی ہیں۔

فصیلِ شہر اماں کی یارو، خدا سے ھم خیر مانگتے ہیں
بلائیں کیا کیا مرے نگر کا ہی راستہ مجھ سے پوچھتی ہیں

وفا کے شیشے کی کرچیوں کے سمیٹنے کا کوئی سلیقہ
بتاؤ حسرتؔ! بڑی ادا سے پری ادا مجھ سے پوچھتی ہیں۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top