فراز اَے نگارِ گُل

mtahirz

محفلین
نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید
کہ جن کے ذکر سے اب دل تازیانہ لگے

تری طلب میں وہ داروسن کے ہنگامے
کہ جن کی بات کریں تو اب فسانہ لگے

بقدرِذوق جلاتے رہے لہو کے چراغ
کہ جب تُو آئےتو یہ گھر نگارخانہ لگے

اِسی خیال سے ہر زخم اپنے دل پہ سہا
کہ تجھ کو گردشِ ایام کی ہوا نہ لگے

مگر جو گزری ہے ہم پر ترے حصوں کے بعد
وہ حالِ غم بھی کہیں ،گر تجھے بُرا نہ لگے

نگارِگل وہ ہمیں تھے ترے تمنائی
کہ جن کے خوں سے ترے رنگ تابناک ہوئے

ہمیں ہیں جن سے قبا تیری لالہ رنگ ہوئی
ہمیں ہیں جوتری رہگزر میں خاک ہوئے

خزاں تو خیر ستم کیشیوں کی رُت تھی مگر
بہار میں بھی ہمارے جگر ہی چاک ہوئے

ہمیں منارہ کسریٰ کو توڑنے والے
ترے حریم میں آکر ہمیں ہلاک ہوئے

نگارِگُل یہ تقاضا مگر وفا کا ہے
کہ اب بھی ہم ترے وعدوں کا اعتبار کریں

گزر گئی جو گزرنی تھی سخت جانوں پر
پھر آج تری جفاؤں کا کیا شمار کریں

الم گزیدہ پیرہن دریدہ سہی
مگر لبوں پہ غم ِ دل نہ آشکار کریں

یہی اصول رہا ہے وفا پرستوں کا
ہر ایک حال میں توصیفِ حسنِ یار کریں

جبیں سے دھو کے ہر اک نقشِ نامرادی کا
نگارِگُل ترے جلووں کا انتظار کریں

درد آشوب
 
Top