او بھائی ٹوائے لائٹ بس کر دے، تم سے نہیں ہو پا رہا

زیرک

محفلین
او بھائی ٹوائے لائٹ بس کر دے، تم سے نہیں ہو پا رہا
نانا جان کی فوتگی پر حسبِ حال وہی ہوتا رہا کہ کچھ لوگ تو ایک منٹ کی فاتحہ کے بعد غائب ہوتے رہے اور کچھ فارغ الکام آدھا پونا گھنٹہ یا کئی کئی تو کئی گھنٹے سیاست بھگارتے نظر آئے۔ لیکن ان دنوں لوگوں کی جگ بیتی خوب سننے کو ملی جس کا خلاصہ یہ رہا کہ عمران خان کی حکومت جس کے سامنے اپوزیشن نام کی نہیں ہے، جسے عدلیہ کی طرف سے بھی کوئی پریشر نہیں دیکھنے کو مل رہا، جسے اصل سرکار کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے، جسے سوائے سوشل میڈیا کے کہیں بھی اپوزیشن کا سامنا نہیں۔ لیکن پھر بھی کیا گڑبڑگھوٹالہ ہے کہ وزیراعظم صاحب بہادر یہ کہتے تھکتے نہیں کہ "ہمارے ہاتھ صاف ہیں، ہمیں فوج کی حمایت حاصل ہے"، انہیں ایسا کہنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اس لیے کہ ان سے نظامِ حکومت نہیں چل پا رہا۔ سب محاذوں پر خاموشی ہونے کے باوجود موصوف یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خوراک کے بحران میں مافیا کا ہاتھ ہے اور میڈیا اسے اچھال رہا ہے۔ عمران خان صاحب حکومت آپ کی ہے، کوئی بحران ہے یا بحران کے پیچھے کوئی مافیا ہے تو اس پہ آپ نے ہی قابو پانا ہے لیکن آپ سے یہ نہیں ہو پا رہا، آپ سے ڈلیور نہیں ہو رہا تو مان لیں کہ آپ سے حکومت نہیں چل رہی، یہی فرق ہے 15 کی ٹیم اور 22 کروڑ کے ملک کو چلانے میں۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے کرکٹ ٹیم کو دھمکی، دھونس اور آمرانہ طرزِ عمل سے تو چلا لیا لیکن یہ بھول گئے کہ 22 کروڑ کی آبادی کا ملک چلانا کوئی خالہ جی کا کھیل نہیں، اس کے لیے تحمل کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ آپ میں نہیں ہے۔ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی وژن نہیں ہے، نہ ہی اس کی کوئی مستقل پالیسی ہے، ایک سہ ماہی میں جو پالیسی اختیار کی جاتی ہے، جب اس کے نقصانات سامنے آنا شروع ہوتے ہیں تو اسے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس کے بالکل برعکس پالیسی اختیار کر لی جاتی ہے۔ خاں صاحب حکومتیں جب مینی فیسٹو بناتی ہیں تو پورے پانچ سال کا پروگرام دیا جاتا ہے، مگر آپ کےیہاں تو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی چل رہی ہے جس کے نقصانات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے روپے کی قدر میں کمی کے ایک ہی مشکل ترین فیصلے نے نوکریاں دینے کے منصوبے کو ملیا میٹ کر دیا، لیکن پھر بھی ہوش نہیں کہ کیا بول رہے ہیں، "فرماتے ہیں ڈالر 225 تک جا سکتا تھا"، حکومت ایسے ہی چلتی رہی تو یہ نمبر کراس ہونے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ روزبروز بڑھتی ہوئی بیروزگاری، آسمان کو چھوتی مہنگائی، ٹیکسوں کی بڑھتی شرح، بجلی و گیس کے بڑھتے نرخوں اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کی وجہ سے سہولیات دینے کو تو بھول جائیں، بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لوئر اور لوئر مڈل کلاس کے گھرانوں میں فاقوں نے ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ بجلی و گیس کے بڑھتے نرخوں کی وجہ سے عوام کے لیے بل کی ادائیگی مشکل تر بنا دی گئی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقوں کے بل بھی ایڈجسٹمنٹ کے غنڈہ ٹیکس کی صورت میں عوام سے ہی لیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم ایک سانس میں یہ کہے کہ "ہاں ہم سے غذائی بحران کی صورت میں کوتاہی ہوئی ہے"، اور پھر یہ کہے کہ "میڈیا اسے اچھال رہا ہے" تو ایسے شخص کو کیا کہوں؟ کہ جو ایک ہی سانس میں اپنا جرم بھی مان رہا ہے لیکن طرہ دیکھیں کہ اس کا دوش دوسروں کو دے رہا ہے، او بھائی بس کر دے، تم سے نہیں ہو پا رہا۔ اس وقت پاکستان قرضوں کی واپسی کے لیے چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہا ہے، ایک طرف آئی ایم ایف کے قرضے ہیں تو دوسری طرف چینی قرضے، حکومت ہر طرح کے ہتھکنڈے آزما کر، ٹیکسوں کی شرح، مہنگائی بڑھا کر، اخراجات میں کٹ پہ کٹ لگا کر بمشکل کسی ایک قرض کی قسط ادا کرنے کے قابل ہوتی ہے تو سفید فام قرض خواہوں کی دھمکیاں سننے کو ملتی ہیں کہ "ہم سے قرض لیا ہے تو اس سے چینی قرضے کی قسط مت دینا، پہلے ہمارا پیٹ بھرو ورنہ آئی ایم ایف کے قرض کی اگلی قسط نہیں ملے گی"۔ اب دھمکان خاں مشکل میں ہیں، حکومت نہ نگلی جا رہی ہے اور نہ اُگلی جا رہی ہے، یہ تو حلق میں جا اٹکی ہے، اب لے مزا، 11 کی ٹیم نے ورلڈ کپ جتوایا تھا اور وننگ سپیچ میں خود نمائی کی ٹوپی پہن کر "ایٹ دا ٹوائے لائٹ آف مائی کیرئیر آئی وِن دا ورلڈ کپ" کہنا بڑاآسان تھا کیونکہ اس وقت وسیم اکرم تھا جس نے لگاتار 2 وکٹیں لے کر میچ بنا دیا تھا، یہاں تو دو دو سیاسی وسیم اکرم پلس ہیں، یہ جب جن صوبوں کی حکومت چلا رہے ہیں، چوری کی سٹاک کی گئی گندم، چینی اور دالیں بھی انہی کی سرکاروں میں پکڑی جا رہی ہیں، یہ کسی قابل ہوتے تو ایسا نہ ہونے دیتے، اور جناب کو "ایٹ دا ٹوائے لائٹ آف پولیٹیکل کیریئر" یہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔
 
Top